Saturday, 02 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. Qaumi Zuban Urdu Ko Nazar Andaz Karna Munasib Nahi

Qaumi Zuban Urdu Ko Nazar Andaz Karna Munasib Nahi

قومی زبان اردو کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جو دراصل ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی لشکرکے ہیں۔ اسی لئے اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ زبان برصغیر میں پیدا ہوئی۔ جب مسلمان ہجرت کرکے ہندوستان آئے تب وہ مقامی زبان سے ناواقف تھے۔ اس وقت وہ عربی اور فارسی بولتے تھے اسی لئے اپنے آپ کو بیان کرنے کے لئے مختلف زبانوں کا استعمال کرتے بس یہیں سے اردو زبان نے جنم لیا۔

اردو زبان کا ہندی زبان سے تعلق اور رشتہ کافی گہرا ہے۔ کہا جاتاہے کہ دونوں زبانیں ایک ہی بطن سے پیدا ہوئی ہیں۔ اردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ اور اثرات زیادہ ہیں جبکہ ہندی میں سنسکرت کا گہرا رنگ ہے۔ لیکن ایک دوسرے سے اس قدر مماثلت رکھتی ہیں کہ اکثر اوقات رسم الخط کے علاوہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ اردو کا اپنا ایک خوبصورت رسم الخط ہے جو ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد معرضِ وجود میں آیا ہے۔

1947 میں آزادی کے وقت ہی اردو کو پاکستان کی قومی و سرکاری زبان قرار دے دیا گیا تھا۔ کیونکہ ملک کے شمالی اور مغربی شمالی اطراف کے لوگ اسی زبان سے واقف تھے۔ اس کے بعد 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ایک عوامی اجتماع کے دوران بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہے اور رہے گی۔

1973 کی قرارداد میں اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا اور اس کے فروغ کے لئے سفارشات کی گئیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام سرکاری دفاتر' اسمبلیوں ' عدالتوں ' اسکولوں ' کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو کا استعمال کیا جائے گا۔

اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت تو حاصل ہوگئی لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ اس زبان کے فروغ میں مسلسل نا اہلی برتی جا رہی ہے اور سرکار ہی اردو کی بجائے انگریزی زبان میں تمام امور سر انجام دیتی ہے۔ اور وہ زبان جس کے لئے برصغیر کے عظیم رہنماؤں نے جان توڑ محنت کی اور جس زبان نے ہمیں کئی عظیم ادیب اور شاعر دئیے وہ اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے 8 ستمبر 2015 کو تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو حکم دیا تھا کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر ہر محکمے میں کسی تاخیر کے بغیر لاگو کیا جائے لیکن بظاہر آج تک اس حکم کی تعمیل نہیں ہو سکی ہے۔

کسی بھی قوم کی زبان اس کی تہذیب و تمدن' معاشرتی و ثقافتی رہن سہن کو ظاہر کرتی ہے۔ اور اس قوم کی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنی اقتدار کو کھوتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان ممالک کی پیروی تو کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زبان' ثقافت کا سودا نہیں کیا تبھی تو وہ قومیں آج کامیاب ہیں۔

اگر ہم جائزہ لیں تو جتنی کامیاب طاقتیں اس کرہ عرض پر موجود ہیں وہ اپنی زبان کو اہمیت دیتی ہیں جیسے چین میں چینی' جاپان میں جاپانی ' پولینڈ میں پولش ' ترکی میں ترکش اسی طرح بیشتر ممالک میں ان کی مقامی زبان ہی بولی' لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہی ان قوموں کی ترقی کا راز ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ہم وہ قوم ہیں جو ایک ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنی قومی زبان نہیں بولتے۔ ہم ایک ملک' ایک جھنڈے کے نیچے ہونے کے باوجود مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ سرکاری سطح پر اردو کے فروغ کے لئے کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

آج ہمارے ملک میں پڑھا لکھا اسے تصور کیا جاتا ہے جو انگریزی اچھی بولتا ہے۔ یعنی تعلیم کے معیار کو انگریزی سے جانچا جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ اٹھا لیں ہر جگہ انگریزی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ترقی کا معیار انگریزی آنے پر سیٹ کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں یا انگلش میڈیم میں صرف اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ وہ منہ ٹیڑھا میڑھا کرکے انگریزی بولنا سیکھ جائیں اور جب بچہ فر فر انگریزی میں بات کرتا ہے تو والدین فخر محسوس کرتے ہیں اس کے برعکس اردو کو صرف ایک مضمون کی حد تک لیا جاتا ہے۔ اگر بچہ اردو غلط بول یا لکھ دے تو کہا جاتا ہے کہ کوئی بات نہیں اردو ویسے ہی مشکل زبان یا مضمون ہے لیکن اگر انگریزی کا کوئی لفظ غلط بول دے تو شرمندگی محسوس کی جاتی ہے۔

قومی زبان ہونے کے ناطے ہمیں اردو بولنی تو آتی ہے کیونکہ اس زبان کو بچہ پیدا ہوتے ہی سنتا ہے لہذا خود ہی سیکھ جاتا ہے لیکن اس کو سمجھنا ' لکھنا آج کی نوجوان نسل کے بس کی بات نہیں کیونکہ ہم اپنی زبان کو سیکھنے پر زور ہی نہیں دیتے نہ ہی اس امر کی اہمیت سمجھتے ہیں۔ حتٰی کہ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ بچے اردو میں بات کرنا یا بولنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

ہمیں اپنی زبان کے فروغ کے لئے کام کرنا چاہئیے۔ بے شک انگریزی زبان کاروباری زبان ہے ہمیں بین الاقوامی سطح پر مقابلے کے لئے انگریزی آنی چاہئیے لیکن اپنی قومی زبان کے فروغ کے لئے بھی اقتدامات کرنے چاہئیے۔ تاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں اور کلاس ' اسٹیٹس کا فرق ختم ہو سکے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن' ثقافت اور اپنی زبان کو فراموش کر دیتی ہیں وقت ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ اور ان کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔

تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ قومی زبان کو سرکاری طور پر ہی نظرانداز کیا جا رہا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ جسطرح حکومتِ وقت اپنی دیگر ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح انھیں ہر حال میں قومی زبان کے ساتھ بھی انصاف کرنا چاہئیے۔

اردو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کی شناخت بھی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے اور یہ واحد زبان ہے جو چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹیلی وژن چینلز اردو زبان میں ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ نجی ادارے اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے حلقے اس حقیقت سے آشنا ہیں اور وہ اردو کی ترقی و تدریج میں مصروفِ عمل ہیں۔ پاکستان میں اردو زبان بے حد مقبول ہے۔ سرکاری طور پر قانون نافذ کروا کر حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر سکتی ہے جو پاکستان کی ترقی و تعظیم کا باعث بنے گا۔

Check Also

Puta

By Syed Mehdi Bukhari