Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Tajurba Aankhen Khol Deta Hai

Tajurba Aankhen Khol Deta Hai

تجربہ آنکھ کھول دیتا ہے

مملکتِ پاکستان، جسے عرفِ عام میں ناپرسان یا بحرانستان بھی کہا جاتا ہے، کے زیادہ تر کمرشلائزڈ اخبارات، جو دوسروں کے روکڑے پر چل رہے ہیں میں سیاست، بحرانستان میں بحران، گھڑی بیچنے والوں کے دور میں معیشت مضبوط جبکہ نون کے دور میں کمزور، جیالا سیاست کا کنگ، نیشنل والے غدار اور تمام اعلیٰ ترین سیاسی جماعتوں کے معززین کے ساتھ وزیروں، مشیروں سے محبت و نفرت اور ان پر مزاحیہ و طنزیہ تنقید کے کالم زیادہ تر پڑھنے والوں کو دستیاب ہوتے ہیں۔ کالم سیاست سے شروع ہوتا ہے اور سیاست پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہونے والا نقطہ معلوم نہیں، بس مدار میں گھوم رہے ہیں۔

جہاں سے شروع، وہیں ختم۔

اتنا تو راقم کو بھی اندازہ ہے کہ کون سا اخبار کس کے اشارے پر چل رہا ہے اور کون سا صحافی یا ریٹائرڈ سرکاری معزز کالم لکھتا ہے یا قصیدے، قصے اور داستانیں۔ عبدالحمید عدمؔ کا شعر ہے

تجربہ آنکھ کھول دیتا ہے

گرنے والے سنبھل ہی جاتے ہیں

میں کوئی فلسفی، دانشور، ادیب یا آکسفورڈ کا گریجویٹ نہیں ہوں۔ ایک مرتبہ ایشیا والوں نے ڈلفی کاہنہ سے پوچھا کہ ہمارے شہر میں سب سے دانا شخص کون ہے اس نے جواب دیا کہ سقراط لوگ یہ سن کر حیران ہوئے کہ سقراط اپنے تیئں نادان کہتا ہے اور یہ صاحبہ الہام اس کو عاقل ترین قرار دیتی ہے سقراط سے پوچھا کہ یہ کیا تضاد ہے اس نے جواب دیا کہ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ نادان تم بھی ہوں اور میں بھی فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنی نادانی سے آگاہ ہوں اور نادانی سے آگاہ رہنا عقلمندی ہے۔ (سقراط کی سوانح عمری سے اقتباس، جو کورامیسن نے لکھی)۔

اخبارات پڑھنا میری پرانی عادت، مزاج اور شوق ہے، لیکن کبھی کبھی یہ سب پڑھ کر اپنے آپ پر غصہ بھی آتا ہے۔ اگر ٹی وی آن کروں تو وہاں بھی ریٹائرڈ دانشوروں، ادیبوں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کا ایک زبردست سیاسی ڈرامہ، چالاکی، کھیل، جوڑ توڑ اور تکرار چل رہا ہوتا ہے۔ عوام کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا۔ سعد اللہ جان برق نے کہا تھا کہ تاریخ درحقیقت 15 فیصد اشرافیہ کی تاریخ ہے۔ عام عوام کا تاریخ میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ اس کا اندازہ مجھے کتاب "پختونوں کی اصل نسل" پڑھتے وقت ہوا۔ یہی حال سیاست کا بھی ہےعوام کا ذکر نہیں ہوتا اور اگر کبھی کبھار ہوتا بھی ہے تو سیاستدان اپنے فائدے کے لیے کرتے ہیں یا آل اِن ون تجزیہ کار اور دانشور سیاستدانوں کے فائدے کے لیے عوام کی بے بسی اور غربت کو استعمال کرتے ہیں۔ حبیب جالبؔ کا شعر ہے:

جینا ہے اگر اس بستی میں اے دوست قصیدہ خواں ہو جا

اخبار میں لکھ ایسی باتیں صاحب کا سکتر جھوم اٹھے

لیکن نظر گل نظر کہتا ہے سرکاری معزز کا سیکرٹری اگلے روز دو تین تحفے بھی ساتھ لاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے کہا طنزیہ انداز میں اتنا تو پڑھنے والے بھی سمجھدار ہے۔۔

گھر سے نکلا اور کہیں دور کھیتوں میں جا پہنچا، جہاں صرف پرندوں کی چہچہاہٹ تھی۔ ایک پرانے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ مدھم سی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ چند قدم پر ایک بڑی ندی سے پانی گر رہا تھا، سکون کی کیفیت تھی۔ خیالوں، خوابوں، سوچوں، تصورات اور فکروں میں غرق تھا کہ آخر کس موضوع پر لکھوں جو ان کالموں سے مختلف ہو جو روز پڑھتا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا سے خیال آیا کہ کوئی ادبی یا فلسفیانہ کالم یا کسی کتاب کا جائزہ لکھوں، تاکہ میرا نام بھی اخبار کی زینت بن جائے۔ درخت زیادہ تھے اور ان سے پتے بھی گر رہے تھے۔ اچانک ذہن میں سوال آیا کہ یہ پتے نیچے گرنے کے بجائے اوپر کیوں نہیں جاتے؟ سوچا، اس پر ضرور لکھوں گا۔ باقی، ایڈیٹر کی مرضی کہ شائع کرتا ہے یا نہیں۔

کششِ ثقل ایک بنیادی قدرتی قوت ہے جو کائنات میں موجود تمام اجسام کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو زمین پر موجود اشیاء کو نیچے کی طرف کھینچتی ہے۔ کششِ ثقل کی شدت کسی بھی چیز کے وزن اور اس کے درمیان فاصلے پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ قوت سب سے پہلے سر آئزک نیوٹن نے 1687 میں دریافت کی اور اس بنیاد پر "کششِ ثقل کا عالمی قانون" پیش کیا۔

چند جملے لکھے اور سوچا کہ دوست امجد کے ہاں جاؤں، آج اس کی چھٹی بھی ہے اور وہ ریاضی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ ان سے کششِ ثقل پر تفصیلی گفتگو کرنے کا ارادہ تھا، لیکن درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے، ٹھنڈی ہوا کے ایک زور دار جھونکے کے ساتھ ایک خیال ذہن میں آیا، جس نے 180 ڈگری پر میرے تمام خیالات، تصورات اور احساسات کو گھما دیا۔ آخرکار میں وہاں سے اٹھا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔۔ ہمارے زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ ریاضی، فلسفہ اور منطق کس بابے کے نام ہیں؟

آج کل پاکستانی میڈیا پر پیکا ایکٹ کے حوالے سے تجزیے، تبصرے اور قصے کہانیاں زور و شور سے ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا سے معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں کے خلاف کوئی قانون نافذ کرنا ضروری ہے۔ نوجوان نسل سوشل میڈیا کو جیسے طوائف کا کوٹھا سمجھ کر استعمال کر رہی ہے، سب اس حقیقت سے واقف ہیں، لیکن خاموش ہیں۔

ان کالم نگاروں کو شاید علم نہیں کہ سیاست، لیگی، انصافی اور جمہوریت کے علاوہ بھی پاکستان میں کئی معاشرتی مسائل ہیں۔

جس موضوع کی تلاش میں نکلا تھا، وہ نہیں ملا۔ اب آپ لوگ بتائیں، کس موضوع پر لکھنا ضروری ہے؟

Check Also

Ittefaq Itna Khoobsurat Nahi Hua Karte

By Tehsin Ullah Khan