Quetta Walay Punjabi (2)
کوئٹہ وا لے پنجابی (2)

بلوچستان 1970ء میں باقاعدہ ایک صوبہ بنا اور 1972ء میں عام انتخابات ہوئے۔ سردار عطاءاللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیراعلٰی منتخب ہوئے اور باوجود اسکے کہ وہ خود ایک سردار تھے اور سرداری انہیں میراث میں ملی تھی، وہ اس سوچ کے مالک تھے کہ بلوچستان کو اب جدّت کی طرف جانا چاہیے اس لیے انہوں نے قانونی طور پر یہاں کے قبائلی نظام کو ختم کر دیا مگر ان سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے سینکڑوں سکول اساتذہ اور قریب 2600 پولیس اہلکار جن کی اکثریت پنجاب سے تھی انہیں یہاں سے فارغ کر دیا اور یہاں کے مقامی لوگوں کو ان کی جگہ بھرتی کیا جن میں کئی صرف پانچویں پاس تھے۔ جس کی وجہ سے تعلیم کے شعبے میں ایک بہت بڑا فقدان آیا اور مقامی بلوچوں کو یہ باور ہوا کہ پنجابی نکالے جا سکتے ہیں، یہ اب بھی ممکن ہے حالانکہ جن اساتذہ کو نکالا گیا ان میں سے کئی ڈیرہ جات کے بلوچ تھے جن کی اکثریت سرائیکی بولتی ہے۔
سردار عطاء اللہ مینگل کے حامی اس فیصلے کا دفاع کرتے ہیں کہ "مشرقی پاکستان الگ ہونے سے جو ملازمین ان کے ماتحت تھے وہ بلوچستان کو دیے گئے جہاں وسائل ویسے ہی کم تھے جس کی وجہ سے سردار عطا اللہ مینگل نے یہاں کے مقامی لوگوں کو نئے روزگاروں پر تقرر کیا، اور اگر انہیں پنجاب سے آئے ہوئے لوگوں کو نکالنا ہی تھا تو انکے دورِ حکومت میں وہ قرارداد کیسے منظور ہوئی جس میں مقامی اور غیرمقامی ہونے کا فرق ختم کردیا گیا تھا"۔
آنے والے چار سال 1973ء تا 1977ء بلوچستان کی تاریخ میں بہت سخت ثابت ہوئے جب ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف سردار عطاءاللہ مینگل کی حکومت معزول کی بلکہ سردار عطاءاللہ مینگل سمیت نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو کو بھی جیل کیا۔ 1977ء تا 1999ء بلوچستان میں امن رہا لیکن پرویز مشرف کے مارشل لاء لگاتے ہی ایک آئینی بحران آیا جس کی حدیں بلوچستان تک بھی پہنچ گئیں۔
سن 2006ء میں اکبر بگٹی شہید ہوئے، حالات خراب ہوتے دیکھ بلوچستان میں موجود فوجی تعیناتیاں بڑھا دی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں 25 ہزار فوجی اہلکار تعینات کیے گئے جن کی اکثریت پنجابیوں کی تھی جس سے پنجابیوں کے خلاف نفرت اور خدشات مزید بڑھ گئے اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک مسلحہ آزادی پسند گروہ نے بلوچستان میں موجود پنجابیوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔ پھر اس آگ کی لپیٹ میں اردو بولنے والے، ہندکو بولنے والے، کشمیری اور دیگر سیٹلر بھی آئے جن میں سے کئی برائے نام سیٹلر تھے کیونکہ وہ نسلوں اور دہائیوں سے یہاں آباد تھے۔
ان حملوں کے بڑ ھتے پیشِ نظر اس حقیقت کو بھی سامنے لایا گیا کہ کئی افسران نے کرپشن اور بے ایمانی سے دیگر صوبوں کے رہائشیوں کو جعلی ڈومیسائل بنا کے دیے ہیں تاکہ وہ وفاقی اداروں میں بلوچستان کے کوٹے پر آسامیاں لے سکیں۔ اگرچہ یہاں آباد پنجابی اور دیگر سیٹلر خود بھی جعلی ڈومیسائل کے حق میں نہیں کیونکہ ان جعلی ڈومیسائلز کی وجہ سے انکے اپنے حقوق بھی سلب ہوتے ہیں اور حال ہی (2023ء) میں اس حوالے سےایک اور قرارداد بھی منظور ہوئی جس میں مقامی اور غیر مقامی، برائے نام سیٹلر، کی بحث ختم کرکے تمام سیٹلرز کو مقامیوں کے برابر قرار دیا گیا تا کہ جعلی ڈومیسالز کے عمل کو روکا جا سکے۔ مگر ان کے رنگ اور نسل کے بنیاد پر انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے لیے ایک عام لفظ پنجابی، استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان میں کئی لوگ اردو، ہند کو بولنے والے اور کشمیری یہاں تک کہ جنوبی پنجاب کے سرائیکی بولنے والے بلوچ بھی شامل ہیں۔ ان کی اکثریت درس و تدریس اور مزدوری سے وابستہ ہے، درزی گری اور بال اور داڑھی بنانےکا ہنر جانتے ہیں جس میں یہاں کے بلوچ و پشتون اور ہزارہ مہارت نہیں رکھتے، الٰا ماشاءاللہ۔
ان سیٹلرز کی حکمران طبقے سے شکایت ہے کہ "ہمارا نام مہروں کی طرح استعمال تو ہوتا ہے پر ہماری حفاظت کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں لیے گئے نہ لیے جا رہے ہیں"۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ جب ڈر کے مارے یہ لوگ پنجاب یا کراچی منتقل ہوتے ہیں تو انہیں کوئٹہ والے پنجابی، کہا جاتا ہے اور کم و بیش انہیں وہاں بھی برابر کا شہری تصور نہیں کیا جاتا۔ اس سے بڑا دکھ کیا ہوگا کہ دہائیاں اور نسلیں لگا دیں بلوچستان کو اپنا گھر بنانے میں لیکن بعد میں سب کچھ چھوڑ کر جانا پڑا اور جہاں آپ گئے وہاں آپ کی پہچان بلوچستان اور کوئٹہ ہی رہے، کہ یہ تو کوئٹہ والےپنجابی ہیں۔ اس لیے اس بات کو انتہائی سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے کہ جو سیٹلر یہاں قانونی طور پر آباد ہیں انہیں مار کر صرف اس صوبے کا مزید نقصان ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ جدت کے لیئے شرط ہے رنگ و نسل، مذہب اور لسانیت کو بالائے طاق رکھ کر قابلیت کو فروغ دیا جائے۔
اس کی بہترین مثالیں موجود ہیں جیسے کہ امریکہ، سنگاپور اور کینیڈا جہاں شہریت حاصل کرنے کے کئی طریقوں میں سے چند طریقوں کا انحصار آپ کی قابلیت یا کسی شعبے میں مہارت پر ہوتا ہے، جہاں قابلیت اور قانون کو تقویت حاصل ہے۔ مختصراً یہ کہ شہید نواب اکبر خان بگٹی کے کلمات کی روشنی میں ہی بلوچستان ترقی کر سکتا ہے کیونکہ انہوں نے کہا تھا، "جو بھی بلوچستان میں آباد ہے، یہاں رہتا ہے، چاہے وہ بلوچ ہو، براہوی بولتا ہو، پٹھان ہو، پنجابی ہو، سندھی ہو، ایرانی ہو یا پھر افریقہ سے ہی کیوں نہ آیا ہو، اگر وہ بلوچستان کو اپنا وطن مانتا ہے تو اسے یہاں برابر کے حقوق حاصل ہیں، یہاں کسی کے حقوق مختلف نہیں، نہ کسی کو کسی پہ برتری حاصل ہے"۔