Lafzon Ka Safar, Kitabon Se Zindagi Tak
لفظوں کا سفر، کتابوں سے زندگی تک

الفاظ کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جو بظاہر کاغذ اور روشنائی کے ذریعے وجود میں آتی ہے، مگر دراصل یہ ایک پوری کائنات کو اپنے اندر سموئے ہوتی ہے۔ الفاظ کی طاقت اتنی شدید ہوتی ہے کہ یہ نہ صرف ہمارے خیالات اور جذبات کو بیان کرتی ہے بلکہ ہماری سوچ، عادات اور یہاں تک کہ ہماری زندگی کے راستے کو بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ کتابیں ان الفاظ کا ایک خوبصورت مجموعہ ہوتی ہیں جو ایک قاری کو نہ صرف معلومات فراہم کرتی ہیں بلکہ اسے ایک نئے جہان کا سفر کرواتی ہیں۔ کتابیں محض معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے، محسوس کرنے اور ان پر غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
جب ہم ایک کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ محض الفاظ پڑھنے کا عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ذہنی سفر ہوتا ہے جو ہمیں ہماری اپنی حقیقت سے نکال کر ایک اور دنیا میں لے جاتا ہے۔ ایک اچھی کتاب ہمیں اپنے ماحول سے پرے لے جا سکتی ہے، جہاں ہم کرداروں کے ساتھ جیتے ہیں، ان کے ساتھ روتے ہیں، ان کے ساتھ ہنستے ہیں اور ان کے تجربات کو اپنے تجربات کی مانند محسوس کرتے ہیں۔ یہ کتابیں ہمیں ماضی کی گلیوں میں لے جا سکتی ہیں، جہاں ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانک سکتے ہیں، یا مستقبل کی ایک خیالی دنیا میں لے جا سکتی ہیں، جہاں ہم نئی ایجادات اور نظریات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
کتابوں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ قاری کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا جملہ، ایک چھوٹا سا خیال، کبھی کبھی زندگی کے بڑے فیصلوں کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے کہ بہت سی عظیم شخصیات کی کامیابی کے پیچھے بھی کتابوں کا ہی کردار رہا ہے۔ مثال کے طور پر، مہاتما گاندھی نے لیوٹالسٹائی کی کتاب "The Kingdom of God is Within You" سے عدم تشدد کا نظریہ اخذ کیا۔ نیلسن منڈیلا نے جیل کے دنوں میں متعدد کتابوں کا مطالعہ کیا جنہوں نے ان کے عزم اور حوصلے کو مزید مضبوط بنایا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی جب کبھی ہم مشکلات میں گھر جاتے ہیں تو اکثر کوئی کتاب ہمیں حوصلہ دیتی ہے، ہمیں راستہ دکھاتی ہے اور ہمیں مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی فراہم کرتی ہے۔
زندگی کے مشکل لمحات میں ایک اچھی کتاب کی صحبت ایک نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ جب ہم تنہائی محسوس کرتے ہیں، جب ہمیں سمجھنے والا کوئی نہ ہو، جب ہمارے دکھ سننے والا کوئی نہ ہو، تب ایک کتاب ہمارے دل کو تسلی دیتی ہے۔ کتابیں ہمارے جذبات کو لفظوں میں ڈھال دیتی ہیں اور ہمیں اپنے احساسات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب کے ساتھ وقت گزارنا ایسا ہی ہے جیسے کسی سچے دوست کے ساتھ بیٹھ کر دل کی باتیں کرنا۔
بچپن میں جب ہمیں کہانیاں سنائی جاتی تھیں تو وہ محض کہانیاں نہیں تھیں بلکہ ہمارے تخیل کی بنیاد تھیں۔ وہ کہانیاں ہمیں خواب دیکھنا سکھاتی تھیں، ہمیں اچھائی اور برائی کا فرق بتاتی تھیں اور ہمیں ایک نئی دنیا کی جھلک دکھاتی تھیں۔ بچوں کے لیے کہانیاں پڑھنا ان کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ آج کے دور میں جب بچے زیادہ تر موبائل فونز اور ٹیلی ویژن کے سامنے وقت گزارتے ہیں، کتابوں کا مطالعہ ان کے ذہن کو ایک مثبت سمت فراہم کر سکتا ہے۔ کہانیاں بچوں کے تخیل کو پروان چڑھاتی ہیں، ان میں سوچنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں اور انہیں زندگی کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرواتی ہیں۔
مطالعہ ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو نہ صرف علم فراہم کرتی ہے بلکہ اسے ایک بہتر انسان بننے میں بھی مدد دیتی ہے۔ مطالعہ ہمیں مختلف نظریات اور نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر کہانی کے دو پہلو ہوتے ہیں، ہر مسئلے کے کئی حل ہوتے ہیں اور ہر صورت حال کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مطالعہ ہماری سوچ کو نکھارتا ہے، ہمیں نئے خیالات دیتا ہے اور ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
کتابیں ہمارے معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ جب کسی معاشرے میں مطالعے کا رواج عام ہوتا ہے تو وہاں کے لوگ زیادہ باشعور، سمجھدار اور مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ کتابیں معاشرتی سوچ اور رویے کو تشکیل دیتی ہیں۔ برصغیر میں علامہ اقبال کی شاعری نے نوجوانوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ ان کی کتاب "بانگ درا" نے مسلمانوں کو اپنے مقام اور مقصد زندگی کو پہچاننے میں مدد دی۔ اسی طرح مولانا رومی کی مثنوی نے روحانیت اور معرفت کے دروازے کھولے۔
کتابوں کی دنیا میں داخل ہو کر ہم اپنی زندگی کے مسائل کا حل بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ زندگی کبھی سیدھی لکیر کی مانند نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ اونچ نیچ کا سامنا کرواتی ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں کے لمحات میں ایک اچھی کتاب ہمیں حوصلہ دیتی ہے، ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ ایک نیا سبق دیتا ہے۔ ایک ناول کا کردار، جو مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور پھر کامیاب ہوتا ہے، ہمیں بھی امید دیتا ہے کہ اگر ہم محنت اور صبر سے کام لیں تو ہم بھی اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں کتابوں کا مطالعہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ زیادہ تر وقت موبائل فون، سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز میں گزارتے ہیں۔ اس جدید دور نے ہمیں تیز رفتار زندگی کا عادی بنا دیا ہے، جہاں ہر چیز فوراً چاہیے۔ کتابیں پڑھنا ایک وقت طلب کام ہے، جو فوری نتائج فراہم نہیں کرتا۔ مگر دراصل کتابوں کا مطالعہ ایک طویل مدتی سرمایہ کاری ہے، جو ہمیں علم، سوچ اور شعور کی دولت سے مالا مال کرتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم خود بھی کتابیں پڑھیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ تعلیمی اداروں میں کتاب میلے اور مطالعہ کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔ گھروں میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے روزمرہ کے معمولات میں کچھ وقت مطالعے کے لیے مخصوص کریں۔
کتابیں ہمارے لیے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ ہمیں انسانیت، محبت، دوستی، صبر، حوصلہ اور محنت کی اہمیت بتاتی ہیں۔ الفاظ کا یہ سفر کتابوں سے شروع ہوتا ہے مگر ہماری زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کر جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوبارہ کتابوں کی طرف لوٹیں، الفاظ کے اس سفر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی زندگی کو ایک نئی روشنی عطا کریں۔
کتابیں دراصل ایک ایسی روشنی ہیں جو زندگی کے اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہیں۔ یہ ہمیں مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی فراہم کرتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب ہمیں خواب دیکھنا سکھاتی ہے، ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمیں اپنی زندگی کے مقصد کی تلاش میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہی کتابوں کا حقیقی جادو ہے کہ یہ ہمارے اندر ایک نئی زندگی کی روح پھونکتی ہیں، ہمیں وہ نظر عطا کرتی ہیں جو عام آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا اور ہمیں ایک بہتر، روشن اور پرامید زندگی کی طرف گامزن کرتی ہیں۔