Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Shohaz
  4. Taliban Ka Afghanistan

Taliban Ka Afghanistan

طالبان کا افغانستان

جب انسان کو چاروں اطراف سے مصیبتیں گھیر لیتی ہیں تو وہ خود کو نااُمیدی کی چوکھٹ پہ کھڑا پاتا ہے، لیکن پھر سے زندہ رہنے کی خواہش اُمید کی ایک کِرن بن جاتی ہے اور نااُمیدی میں انسان ایک نئی اور خوشحال صبح کا منتظر رہتا ہے۔ دنیا کی کئی اقوام کی طرح افغان بھی مجموعی طور پر اسی حالت میں رہ رہے۔ صدیوں سے وہ ایک خوبصورت صبح کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں جو ابھی تک پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

افغان سرزمین اور افغانستان کے باسیوں کی حالت، ان کی مزاج، ان پر بیتی مصیبتوں کی روئیداد پہ سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ مگر میری نظر میں دو ہی ایسے مصنّف گزرے ہیں جنہوں نے صحیح معنوں میں افغانیوں کی نمائندگی کی ہے، ایک خالد حسینی اور دوسرا کرسٹینا لیمب۔

"طالبان کا افغانستان" مس کرسٹینا لیمب کی تصنیف ہے جو پیشے کے اعتبار سے برطانوی صحافی تھی۔ افغان ایشو اور افغان قوم کی حالتِ زار پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے۔ ہو سکتا ہے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ افغان قوم کی مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہو جائیں، مگر ایک بات یاد رکھیں کہ قومیں اس سے بدتر حالات میں زندہ رہی ہیں اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں کامیاب رہے ہیں۔

افغانستان جو "بادشاہتوں کا قبرستان" کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو وجود میں آتے ہی جنگ کی آگ میں سلگتا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ امن نامی بلا سے ناآشنا ہیں۔ کبھی کبھی مختصر مدت کے لئے امن قائم رہا تو وہ اس ملک کی تاریخ میں سہانے خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں جب گھر میں بچّہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ اسے کامیابی و خوشحالی کی نہیں بلکہ زندہ رہنے کی دعائیں دیتے ہیں کیونکہ اس ملک میں اوسط عمر چالیس سال ہے۔ یہاں بہت کم لوگ اپنی موت مرتے ہیں بلکہ اکثریت کی موت گولیوں کی نوک پہ لکھی ہوتی ہے۔

اس ملک کے حوالے سے پشتونوں کا کہنا ہے کہ "جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر پڑا رہ گیا، اس نے سوچا چلو ان سے ایک اور ملک بنا لیتے ہیں چنانچہ اس نے ان کو جوڑ جاڑ کر افغانستان بنا ڈالا۔ " ظاہر سی بات ہے اب ایسی سرزمین پہ رہ کر حکمرانی کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام نہ روس کر سکا نہ امریکہ اور نہ خود کوئی افغان۔ احمد شاہ ابدالی (افغانستان کے بانی) سے لے کر آج تک کوئی بھی سکون سے افغانستان پر حکومت نہیں کر سکا۔ پھر سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ دنیا کا ہر سُپر پاور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اپنا حق سمجھتا ہے۔ دوسروں کو چھوڑیں پاکستان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا۔

کرسٹینا لیمب نے اس چھوٹی سی کتاب میں افغانستان کی تمام بادشاہوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے پہلی 1988 کو براستہ کوئٹہ افغانستان پہنچی، جس وقت ملّا فرنٹ روس کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔ اس نے پہلی بار افغانستان کے صوبہ قندہار میں قدم رکھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ مچھلی ہتھیلی پر رکھ کر سورج کے سامنے کر دیں تو تھوڑی دیر میں وہ بھن جائے گی۔

پوری کتاب اس کی اپنی روئیداد ہے۔ افغانستان کو اپنی دو مختلف دوروں کے دوران اس نے جیسا دیکھا ویسا ہی لکھا۔ یہاں کے باسیوں کے خیالات کو اپنی تحریر کا حصّہ بنایا۔ بیرونی دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی تھی اور اصل میں معاملات کیا تھے، یہ سب چیزیں آپ کو اس چھوٹی سی کتاب میں ملیں گی۔ کہانی شروع ہوتی ہے 1988 سے، پھر روس کے زوال سے ہوتے ہوئے نائن الیون کے واقعے تک پہنچتی ہے۔

اسامہ بن لادن اور ملّا عمر کی تباہ کاریوں سے لے کر امریکی بمبار طیاروں کی آمد تک پورا ایک زمانہ گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ مہاجرین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جاتی ہے اور لوگ صرف اپنی جان بچانے کے لئے اپنا گھر بار، اپنا کاروبار، اپنا وطن سب چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ زخمیوں اور یتیموں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ خوبصورت باغات کھنڈر بن جاتے ہیں۔

بلند و بالا عمارتوں میں راکٹوں کے اتنے چھید ہوتے ہیں کہ وہاں پرندے آ کر انڈے دیتے ہیں۔ لڑکیوں کے سکول بند ہوتے ہیں اور جالی نما برقعوں میں صرف اس وقت گھر سے نکل سکتے ہیں جب کوئی محرم ان کے ساتھ ہو۔ گانا گانا حرام، تصویریں دیکھنا حرام، غرض فنون لطیفہ سے جڑی ہر چیز حرام قرار دی جاتی ہے۔ لائبریریوں سے کتابیں اٹھا لی جاتی ہیں کیونکہ ان سے علم کی مہک آتی ہے جو کسی بھی بنیاد پرست گروہ کو گوارا نہیں۔

جنگ دوسروں کی تھی مگر مرے افغان، لٹ گئے افغان، بے گھر ہو گئے افغان۔ ان کو کبھی ان کے حال پہ رہنے نہیں دیا گیا۔ دوسری آسائشیں اپنی جگہ لوگوں کے لئے دو وقت روٹی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے۔ آج بھی افغانستان کی یہی حالت ہے۔ طالبان آئے، طالبان گئے، پھر سے امریکہ نواز افغان حکومت بنی، یہ نہ ٹک سکی تو پھر ایک بار طالبان آئے مگر افغان عوام وہیں کی وہیں رہ گئی۔ ان کی کس کو پڑی ہے؟ اہمیت تو اس زمین کی ہے اس کے باسیوں کی نہیں۔

روس کی آمد سے لے کر طالبان کے زوال تک کی پوری کہانی آپ کو اس کتاب میں ملے گی۔ کئی دفعہ کتاب پڑھتے وقت میری آنکھیں اشکبار ہوگئیں مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ جن طاقتوں کو افغانی اپنا دشمن سمجھتے ہیں وہی ہماری تباہی کا بھی سامان مہیا کر رہے ہیں۔

اختتام سر اولف کیرو کے ایک قول سے: "دوسری جنگوں کے برعکس افغان جنگ اپنے اختتام کے بعد سنگینی اختیار کرتی ہیں۔ "

خدا نہ کرے کہ پھر کبھی ایسا ہو۔

Check Also

Special Bachon Ka Social Network

By Khateeb Ahmad