بے روزگار کرنا ، کہاں کا انصاف؟
ہزاروں ماہی گیر ایک ہفتے سے بے روزگار ہیں۔ مادہ کیکڑا چین برآمد کرنے پر پابندی سے گزشتہ ایک ہفتے سے کراچی ابراہیم حیدری سے لے کر ضلع بدین کے علی بندر تک ہزاروں ماہی گیر بے روزگار ہوگئے ہیں۔ جب کہ کراچی میں کیکڑا خریدنے کی کئی کمپنیاں بند ہوگئی ہیں اور جو ماہی گیر ساحل سمندر کے کنارے سے شکار کیے ہوئے مادہ کیکڑے کمپنی لے جا رہے ہیں، انھیں کمپنیاں خریدنے سے انکار کر رہی ہیں جس سے ماہی گیروں کا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔
فی مادہ کیکڑا کی قیمت 100 روپے، فی نر کیکڑے کی قیمت 250 روپے ہے جب کہ 80 فیصد مادہ کیکڑے ہی شکار کیے جاتے ہیں۔ نر کیکڑے کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے 20 فیصد شکار کیا جاتا ہے۔ اس لیے مادہ کیکڑے کے شکار سے ماہی گیروں کو فائدہ ہوتا ہے۔
مادہ کیکڑے پر پابندی کے باعث کراچی ابراہیم حیدری، کیٹی بندر، گھارو، شاہ بندر، جاتی، زیرو پوائنٹ اور علی بندر کی تقریباً دو سو کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی کے ہزارہا ماہی گیر گزشتہ ایک ہفتے سے بے روزگار ہوگئے ہیں جن کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ ماہی گیروں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مادہ کیکڑے کی برآمد پر پابندی ختم کرکے ماہی گیروں کو فاقہ کشی سے بچایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ احتجاج کا دائرہ بڑھادیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت سرکار کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی سے متعلق درخواست پر اہل خانہ کی کفالت حکومت کی ذمے داری قرار دیا۔
عدالت نے حکم دیتے ہوئے سیکریٹری سوشل ویلفیئر، سیکریٹری زکوٰۃ، سیکریٹری وومن ڈیولپمنٹ اور سیکریٹری بیت المال کو طلب کر لیا۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ من پسند افراد کو تو ملازمتیں فراہم کرتے ہیں کچھ اللہ کے بندوں کے لیے بھی کریں۔ لاپتہ شخص کی بیوی، بیٹی یا بیٹے کو ہی سرکاری ملازمت دے دی جائے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک بار مرنے کا اتنا دکھ نہیں ہوتا، لاپتہ افراد کے اہل خانہ روز روز مرتے ہیں۔ ریاست پورے خاندان کو کیوں دشمنی پر اترنے کے لیے مجبور کر رہی ہے؟ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا ریاست کی ذمے داری ہے۔
اس گھرانے پر کیا گزرتی ہوگی جس کا سربراہ لاپتہ ہے، جن کے شوہر لاپتہ ہیں، ان کے گھر کفالت کون کرتا ہوگا؟ رینجرز کے وکیل نے موقف دیا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت کا یا معاوضہ دینے کے لیے کمیٹی بنا دی جائے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب ہم لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو کمیٹیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ عدالت نے لاپتہ شہری کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کر دی، عدالت نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت سرکار کے ذریعے کرنے کا حکم دے دیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کے ان احکامات پر کہاں تک عملدرآمد ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے عدالتوں کے مثبت فیصلوں پر ابھی تک فیصلے نہیں ہوئے۔ اگر اس فیصلے پر بھی عملدرآمد ہو جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت کرنے کا جو حکم صادر کیا ہے یہ ایک تاریخی اور انسان دوست فیصلہ ہے۔ دوسری جانب سر راہ اخلاقی جرائم عروج پر ہیں۔ پولیس کی عدم دلچسپی کے باعث ضلع وسطی میں جرائم کی وارداتیں عروج پر پہنچ گئیں۔
نیو کراچی صنعتی علاقہ کے سیکٹر 6 بی میں دن دہاڑے لوٹ مار کی وارداتوں نے شہریوں کو شدید ذہنی الجھن کا شکار کردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس نے شریف شہریوں کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
سیکٹر 6 بی میں فیکٹری ملازمین کو موٹر سائیکل پر سوار 2ڈاکوؤں نے اسلحے کے زور پر یرغمال بنا کر موبائل فون اور پرس سے محروم کر دیا۔ رواں سال کچھ ہفتے قبل سفید رنگ کی ہائی روف میں سوار ڈاکوؤں نے سیکٹر 6 بی میں بینک سے پیسے نکلوا کر آنے والی گاڑی کو بھی دن دہاڑے اسلحے کے زور پر روک کر 15 لاکھ روپے لوٹ لیے۔ اب شہریوں اور مزدوروں کو یکجا ہو کر اعلیٰ افسران سے بات کرنی ہوگی۔ ہرچندکہ مسائل کا حل امداد باہمی میں ہی مضمر ہے۔