کوئٹہ ۔ ایک تہذیبی شہر
پاکستان کے تمام خطے اور تمام شہر خوبصورت ہیں سب کی اپنی اپنی تاریخ اور تہذیب و ثقافت ہے۔ پچھلے دنوں کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا وہاں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالحئی خان بلوچ اور سردار نبی بخش خان مری کے ساتھ ساتھ دیگر عمائدین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وسیب سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر تعلیم مہر سلیم اختر نے عشائیہ کا اہتمام کیا جہاں کوئٹہ کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور اہل قلم سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مشرق کے طارق خان گشکوری، جعفر خان ترین، انجم بیگ، جاوید فریدی، سلیم فریدی، اکرم خان بنگلزئی و دیگر نے بہت محبتیں دیں۔ کانفرنس سے خواجہ غلام فرید کوریجہ، محمد بخش براٹھا اور میں نے اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دیا کہ ملک کے تمام پسماندہ علاقوں کو ترقی ملنی چاہئے اور محروم خطے کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہئے۔ بلوچستان کے معروف اہل قلم شاہ محمد مری سے میں نے فون پر ٹائم لیا مگر افسوس کہ اُن سے نہ مل سکا۔ کوئٹہ دورے کے دوران مجھے دوستوں نے بہت کتابیں دیں جس سے کوئٹہ کی تاریخ اور ثقافت کو جاننے کا موقع ملا۔ یہ حقیقت ہے کہ صدیوں میں آباد ہونے والا یہ شہر 1935ء کے شدید زلزلے میں بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ اس وقت تک اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہو چکی تھی۔ زلزلے میں ہزار ہا افراد ہلاک ہوئے اور بیشتر عمارتیں جو دو اور تین منزلہ تھیں، ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں۔ موجودہ شہر اسی پرانے شہر کے کھنڈرات پر آباد ہوا۔ زلزلے کے بعد یہاں مٹی، لکڑی اور ٹین کے مکانات بنانے کا رواج پڑا۔ یہ مکان جو سیون ٹائپ کہلاتے ہیں، اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ تاہم جدید طرز تعمیر کے مطابق زلزلوں سے محفوظ پختہ مکانات اور عمارتیں بنانے کا سلسلہ بھی کئی سال سے جاری ہے لیکن میونسپل قواعد کے مطابق تمام شہریوں کو اب بھی دو منزلوں سے زائد اور چھبیس فٹ سے زیادہ بلند پختہ مکان بنانے کی اجازت نہیں۔ تاہم یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے کی مصداق قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں ہو رہی اور بے ہنگم آبادی بڑھ رہی ہے۔ ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری میں مغلیہ عہد کے صوبہ ملتان کی حدود کیچ مکران تک بتائی گئی ہیں جس طرح ملتان قدیم ہے اسی طرح کوئٹہ شہر بہت قدیمی ہے۔ بلوچستان میں عربوں کی آمد سے بھی پہلے بلوچستان کے چار پہاڑوں، کوہ مردار، کوہ زرغون کوۃ تکاتو اور کوہ چلتن میں گھری ہوئی سرسبز قدرتی وادی میں ایک چھوٹی سی بستی آباد ہوئی۔ مٹی سے بنے ہوئے چند گھروندوں پر مشتمل اس بستی کے مکین علاقے کے گلہ بان تھے، جنہوں نے سبزے اور پانی کی بنا پر اس وادی کو اپنا مسکن بنا لیا تھا اور خانہ بدوشی سے نجات حاصل کرکے سکون کی زندگی اختیار کر لی تھی۔ یہ بستی شال کے نام سے مشہور ہو گئی۔ رفتہ رفتہ اس کی آبادی بڑھتی گئی اور اس نے ایک باقاعدہ گائوں کی شکل اختیار کر لی۔ کوئٹہ کے مشرق میں ضلع سبی اور مغرب میں افغانستان ہے۔ ضلع کوئٹہ کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے۔ سلسلہ کوہ بروہی وسطی اور اس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں کوہ چلتن، کوہ مردار اور کوہ زرعون وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے لیے بلوچستان کی قدرتی تقسیم کو انتظامی طور پر بھی نافذ کر دیا تھا۔ جنوبی وزیرستان کی سرحد سے درہ بولان تک کا علاقہ پشتون بولنے والے قبائل کا علاقہ تھا۔ اسی علاقے میں معمول کا نظم و نسق قائم کرکے اسے برٹش بلوچستان کا نام دے دیا اور جنوبی علاقے کی چار بلوچ ریاستوں کو برقرار رکھ کر حکمران مقرر کر دیئے گئے۔ قلات، خاران، لسبیلہ اور مکران کی چار ریاستوں کے الگ الگ حکمران تھے۔ اس کے ساتھ ہی بلوچوں کے قبائلی نظام کو مستحکم کرکے ریاستوں کے علاقے کو بالائی یعنی ساراوان اور نشیبی یعنی جھالاوان دو علاقوں میں تقسیم کرکے دونوں کے الگ الگ سردار مقرر کئے۔ مختلف قبائل پر بھی سردار مقرر کئے گئے نشیبی علاقے کے تمام سردار نشیبی علاقے کے بڑے سردار کے ماتحت تھے اور یہی صورت بالائی علاقے میں تھی۔ خان آف قلات کو حکمرانوں اور سرداروں کے سردار کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئٹہ میں صنعتی ترقی نہیں ہو سکی۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ سب سے بڑی رکاوٹ قبائلی سردار رہے ہیں۔ انگریز دور میں یہ تمام خان اور نواب اور سارے سردار بلوچ علاقے میں روایات کی بنیاد پر نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمے دار تھے اور اس کے صلے میں ان کو حکومت برطانیہ سے وظائف ملتے تھے۔ اس نظام ہی نے بلوچستان کے بلوچ علاقے بلوچستان اسٹیٹس یونین میں قبائلی اور سرداری نظام کو مستحکم کیا جو بالاخر اس علاقے کی سماجی اور قبائلی زندگی کی جڑوں میں بیٹھ گیا اور بعد میں کئی بار سنگین مسائل، سیاسی جھگڑوں اور مسلح تصادم کا سبب بنا۔ 1970ء میں مغربی پاکستان کے ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد صوبے بحال ہوئے تو بلوچستان کو بھی پہلی بار صوبائی حیثیت ملی اور کوئٹہ اس کا صوبائی دارالحکومت بنا۔ اس شہر کا پرانا نام شال، یا شال کوٹ اب بیشتر لوگوں کے ذہن سے مٹتا جا رہا ہے۔ یہ جان کر افسوس ہوا کہ کوئٹہ بڑا صنعتی شہر بھی نہیں ہے، بلوچستان میں زراعت بھی مفقود ہے البتہ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے مگر یہ دولت عام آدمی کی فلاح پر خرچ نہیں ہوتی اس کا فائدہ وڈیرے اور سردار حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی جان کر افسوس ہوا کہ زیادہ تر لوگ سمگلنگ کے دھندے سے وابستہ ہیں اور اس سے گزر بسر کرتے ہیں۔ بہر حال کوئٹہ خوبصورت ہے اور عمارتیں بھی خوبصورت ہیں۔ ایک عمارت کوئٹہ ٹیلی ویژن سنٹر کی ہے۔ دوسری اہم عمارت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہے۔ ادبی تنظیم قلم قبیلہ کی عمارت نصف ایکڑ رقبے پر اور پاکستان چلڈرن اکیڈمی کی عمارت جو زیر تکمیل ہے تقریباً پانچ ہزار مربع گز رقبہ پر بنائی گئی ہے۔ یہ دونوں عمارتیں بلوچستان کے سابق گورنر جنرل رحیم الدین خان کی اہلیہ بیگم ثاقبہ رحیم الدین خان کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کی وسیع و عریض عمارت مختلف مراحل میں تعمیر ہوئی ہے اصل میں یہ منرل کالج کی عمارت تھی۔ منرل کالج کا منصوبہ ترک کرکے عمارت بلوچستان یونیورسٹی کیلئے دیدی گئی۔ اس میں کئی مراحل میں نئے بلاک تعمیر کئے گئے۔ مزید قابل ذکر عمارتوں میں پی آئی اے کا علاقائی دفتر، بولان میڈیکل کالج، جیالوجیکل سروے آف پاکستان کا دفتر، انٹر نیشنل ایئر پورٹ، پولیس ہیڈ کوارٹر، بلوچستان پبلک لائبریری، گورنر ہائوس اور سیکرٹریٹ کی عمارتیں ہیں۔ دو دن کوئٹہ کو دیکھنے کے بعد تشنگی ابھی باقی ہے۔