Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Anokha Andaz e Hijrat

Anokha Andaz e Hijrat

انوکھا انداز ہجرت

بعض خبریں ہی ایسی ہوتی ہیں جو اپنی جانب بےساختہ توجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر اور تصویر گذشتہ دنوں جیو نیوز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پڑھے اور سنے بغیر نہ رہ سکا خبر یوں تھی کہ "یورپ کی ڈنکی لگانے کی کوشش ناکام، نوجوانوں نے خود پر کالا رنگ اور کاٹن لگا کر مویشیوں کا روپ دھار لیا۔ ملزمان نے خود کو کئی تہوں والی روئی میں لپیٹا، جسم پر سفید کپڑا اوڑھا اور چہروں پر ایسا رنگ کیا کہ بالکل اصلی بھیڑوں میں گھل مل جائیں۔ جسموں پر روئی چپکائے اور چہرئے سیاہ کئے ہوئے یہ، انسانی بھیڑیں جہاز سے اتر کر ایک گاڑی کے ساتھ چل رہی تھیں جس میں حقیقی مویشی لادے گئے تھے۔ لیکن قسمت نے یاوری نہ کی۔

پولیس اہلکاروں کو کچھ "بھیڑوں" کی حرکتیں انسانوں جیسی لگیں۔ مزید شک بڑھا، تو گاڑی روکی گئی اور یوں ایک حیران کن انسانی اسمگلنگ کا منصوبہ بے نقاب ہوگیا۔ تینوں افراد کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ یورپ پہنچنے کی کوشش میں لوگ کیسے ناقابلِ یقین حدوں تک چلے جاتے ہیں۔

یہ واقعہ الجزائر سے اسپین جانے والے جہاز میں پیش آیا جب پولیس اہلکاروں کو ایک بھیڑوں سے بھرئے جہاز میں کچھ بھیڑوں کی حرکتیں انسانوں جیسی محسوس ہوئیں، شک بڑھا اور چیک کیا تو یوں یہ حیران کن انسانی اسمگلنگ کا انوکھا اور منفرد منصوبہ بےنقاب ہوگیا "اس سے قبل بھی بےشمار لوگ ایسی کوشش میں یا تو پکڑے جاتے ہیں یا پھر سمندر میں کشتیاں ڈوبنے، کنٹینرز میں دم گھٹنے یا سفری صعوبتوں کی باعث سے اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں اور باوجود تمام تر کوشش کے ایسے واقعات میں کمی نہیں آپارہی ہے۔

ذرا سوچیں کہ ایک جانور کا روپ دھار کر سفر کرنا کس قدر دشوار اور تکلیف دہ ہوا ہوگا۔ آج دنیا بھر میں ایسی نت نئی غیر قانونی ہجرت کی داستانیں اور طریقے ہر روز سننے کو ملتے ہیں جو حیران کن ہوتے ہیں۔ ایسی ہجرت کسی ایک ملک سے ہی نہیں بلکہ ہر غیر ترقی یافتہ ملکوں کے افراد کی جانب سے دیکھنے میں آتی ہے۔ آج پوری دنیا میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اس دھندئے میں ملوث ہیں اور یہی بات پوری دنیا کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ایک عجیب سا سفر خاموشی سے جاری ہے۔ ہزاروں نوجوان اپنے مستقبل کے سنہرئے خواب سجائے یورپ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یورپ جانے کا بڑھتا ہوا رجحان چاہے وہ قانونی راستوں سے ہو یا خطرناک غیر قانونی طریقوں سے ہو دراصل صرف بےروزگاری یا پر تعیش زندگی کے خواب تک محدود نہیں۔ یورپ کا سفر خوابوں کی تلاش ہے یا پھر حقیقت سے فرار کا راستہ؟ یہ ایک پیچیدہ سماجی، معاشی، نفسیاتی اور عالمی حقیقت ہے جس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔

ذرا غور کریں کہ ہمارئے خطے کے نوجوان صرف بےروزگاری سے نہیں بھاگتے بلکہ غیر یقینی مستقبل، سیاسی اتار چڑھاؤ، معاشی عدم استحکام اور مسلسل مہنگائی انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ "اگر یہاں رہ کر بھی کچھ یقینی نہیں ہے تو باہر جاکر قسمت آزمائی کیوں نہ کی جائے؟" درحقیقت یہ سوچ روزگار سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے جو انہیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنی جان تک کو خطرئے میں ڈالنے پر آمادہ کر لیتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یورپ جانے والا ہر نوجوان گاڑی، شاندار فلیٹ یا برانڈڈ لباس اور بھاری معاوضوں کے پیچھے نہیں بھاگتا اور نہ ہی وہ وہاں شادی کرنے کی کوئی خواہش رکھتا ہے۔ بلکہ اکثر تو عزت کی کمائی، محفوظ ماحول اور نظام کے احترام کے متلاشی ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کھلے آسمان تلے انصاف اور برابری کی خواہش انسانی فطرت کا تقاضا ہوتی ہے۔ یعنی پرتعیش زندگی کا خواب نہیں بلکہ بامقصد زندگی کی تلاش انہیں یہ خطرہ مول لینے پر مجبور کرتی ہے۔

دوسری جانب ہمارئے معاشرئے میں جب کسی ایک شخص کی بیرون ملک کامیابی کی کہانی گھروں، خاندانوں اور دوستوں میں مشہور ہو جائے تو پورئے علاقے میں یہ نظریہ پروان چڑھنے لگتا ہے کہ بس ایک بار یورپ پہنچ جاؤ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہ سماجی دباؤ والدین، دوستوں اور رشتے داروں کی توقعات بھی بڑھا دیتا ہے۔ آج نوجوانوں کے خواب، خواہشات بڑھ رہی ہیں جبکہ قانونی ویزوں، ورک پرمٹ، یا تعلیمی اسکالرشپ کے دروازئے بہت محدود اور تنگ ہوتے ہیں۔ یعنی باہر جانے کی طلب زیادہ اور قانونی مواقع کم پڑ جاتے ہیں۔ یہی عدم توازن انسان کو جرات، غلطی اور رسک لینے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں امید کا دروازہ تنگ اور مشکل ہو وہاں بےخوفی یا بےچینی کی سوچ بڑھنے لگتی ہے۔ ایسے میں انسانی اسمگلرز اور ایجنٹ مافیا صرف ویزہ نہیں بلکہ سنہرئے خواب بیچتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ "جب تک لالچی زندہ ہیں ٹھگ بھوکے نہیں مرتے" اسی لیے یہ انسانی اسمگلرز بڑی آسانی سے اپنا شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کیونکہ جھوٹی امیدیں اور خواب انسان کی فطری کمزوری ہوتی ہیں۔ ان نوجوانوں کے یورپ میں پہلے سے موجود رشتے دار بھی انہیں تسلی دیتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی طرح یہاں پہنچ جاو بس پھر ہم سنبھال لیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یورپ میں آبادی تیزی سے بوڑھی ہو رہی ہے اور نوجوانوں کی ضروت بڑھ رہی ہے۔ اس لیے انہیں مزدور، ڈرائیور، نرس، ٹیکنیشن، فارم ورکرز کی ضرورت ہے اس لیے روزگار ملنا مشکل نہ ہوگا۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہاں کی مشکلات اور اپنی زمین اور رشتوں سے دوری کا دکھ کتنا ہوتا ہے۔ یہ دراصل نہ صرف غربت، نہ صرف خواب بلکہ امید اور مایوسی کا ملا جلا سفر ہوتا ہے جو یہ نوجوان اپنے بقا کی جنگ سمجھ کرتے ہیں۔

جی ہاں! عزت کی تلاش، بہتر سسٹم کا خواب، عالمی اقتصادی فرق، سماجی دباؤ، ریاست پر کم ہوتا اعتماد اور اپنے مستقبل سے بڑھتی مایوسی انہیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ ان نوجوانوں کا تعلق بیشتر ہمارئے ترقی یافتہ اور مالی طور پر خوشحال علاقوں سے ہوتا ہے۔ جو یہ بتاتا ہے کہ یہ نوجوان صرف روٹی اور رزق کی تلاش میں نہیں نکلتا وہ اچھے اور روشن مستقبل کی تلاش میں نکلتا ہے۔ وطن چھوڑنے والے وطن کی مٹی سے محبت کرتے ہیں وہ یہ جدائی کا دکھ نہیں بھولتے صرف وہ جگہ بدلتے ہیں جہاں ان کے خوابوں کی تکمیل ممکن ہو سکے۔ ورنہ والدین، بیوی بچوں، بہن، بھائیوں اور خاندان سے جدائی کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہوتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ قانونی طور پر باہر جانے والے اورسیز کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جو زرمبادلہ لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بیرون ملک یوں دھکیلنے کی بجائے ایسا نظام دیں جہاں وہ یہاں رہ کر بھی باعزت روزگار اور تحفظ محسوس کریں اور ساتھ ساتھ ان کی خواہشات اور خوابوں کی تکمیل کے لیے قانونی طریقے سے باہر جانے میں آسانیاں پیدا کریں۔ کیونکہ وہ صرف بہتر زندگی کے طالب ہیں۔ باہر کی جانب ان کے قدموں کی یہ آواز اس معاشرئے کے ان مسائل کو بیان کرتی ہے کہ جنہیں حل کیا جانا چاہیے۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ ریاستی سطح پر اصلاحات، روزگار کے مواقع اور شفاف نظام کی کتنی ضرورت ہے ورنہ نوجوانوں کی نظریں سرحدوں کے پار دیکھنے اور وہاں جانے پر مجبور رہیں گیں۔ حکومتی سطح پر انسانی اسمگلرز کے خلاف مزید سخت قوانین اور سزاوں کانفاذ ضروری ہو چکا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari