Aik Police Officer Ki Call Aur Behtari Ki Tajaveez
ایک پولیس افسر کی کال اور بہتری کی تجاویز

پولیس کے ایک آفیسر کی کال آئی۔ وہ کہنے لگے آپ پولیس کے ایشوز پر پوڈکاسٹ رکھ لیں۔ میں خود تو شاید یونیفارم میں ہونے کے سبب بہت باتیں نہ کر سکوں اور آپ کے سننے والے بھی یہی تاثر لیں گے چونکہ حاضر سروس ہے اس لیے اپنے محکمے کے لیے عذر تلاش رہا ہے البتہ آپ کو سابق آئی جی پنجاب کلیم امام صاحب کو ریفر کر دیتا ہوں۔ وہ کھل کر بات کر سکتے ہیں اور پولیس میں ان جیسے آفیسرز کم ہی گزرے ہیں۔
کلیم امام صاحب بلاشبہ بہت قابل آفیسر تھے۔ ان کی شہرت اچھی رہی اور پولیس کی نوکری میں اپنی ریپیوٹ بحال رکھنا یقیناً بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ عرض کی کہ سر جی پولیس سٹرکچر یا پولیس آرڈر، تھانہ کلچر، اہلکاروں کے ڈیوٹی شیڈول، ان کی تنخواہ الاؤنسز وغیرہ وغیرہ کے ساتھ امن و امان کے مسائل اور پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے برتنا یا آفیسرز پر سیاسی دباؤ ہونا وغیرہ پر بات کرنا تو چلیں ٹھیک ہے اور یہ مسائل میرے نوٹس میں بھی ہیں لیکن آج کے حالات میں تو میں ماورائے عدالت پولیس مقابلوں، نیفے میں پستول چلنے اور زبانی احکامات پر پولیٹیکل اینڈ کریمنل آپریشنز کرنے جیسے معاملات پر بات کرنا چاہوں گا۔ کہنے لگے پھر آپ سہیل ظفر چٹھہ صاحب یا ان کے محکمے میں کسی کو انگیج کریں۔ کانٹیکٹ شئیر کر سکتا ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کوئی اس پر بات کرنے پر فی الوقت مانے گا۔
خیر، لمبی کال تھی۔ مجھ سے پوچھنے لگے آپ ون پوائنٹ سلوشن کی بتا سکتے ہیں جس سے پولیس کی کارکردگی اور ریپیوٹ بہتر ہو سکے۔ عرض کی کہ اس پر مفصل لکھ چکا ہوں۔۔ چاروں صوبوں کے آئی جیز کو تین سالہ آئینی عہدہ دیا جائے تاکہ پولیس سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہو پائے۔ جب آئی جی کو تسلی ہوگی کہ اس کو ماسوائے صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اور کوئی نہیں ہٹا سکتا تو وہ بھی اپنے ادارے کو غیر سیاسی کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ آئی جیز کی تعیناتی کا نظام شفاف اور میرٹ کی بنیاد پر وضع کیا جائے۔ پولیس کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔
اور بھی کافی معاملات ڈسکس ہوئے اور آخر میں ہنس کر کہنے لگے "بخاری صاحب جیسا پاکستان آپ دیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جن کے اختیار میں ہے وہ ویسا نہیں دیکھنا چاہتے۔ تو آپ خون نہ جلایا کریں"۔
لکھتے ہوئے یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب میں پنجاب گینگ وار سیریز لکھ رہا تھا اور اس میں پولیس کے کردار بھی لکھ رہا تھا کہ کیسے پولیس افسران ان گینگز سے تعلقات بھی استوار کرتے رہے اور کچھ افسران ان کا صفایا بھی کرتے رہے۔ انہی دنوں مجھے سی سی ڈی سے ایک صاحب کی کال آئی۔ وہ مجھے آف دی ریکارڈ موجودہ حالات یا آج کے گینگز اور ان کی سیاسی پشت پناہی کرنے والوں پر بتانے پر تو آمادہ تھے لیکن اس پر لکھنے یا ریکارڈ کرنے پر راضی نہیں تھے۔ پرائم وجہ ان کی اپنی جاب تھی اور اس کے ساتھ وہ سمجھتے تھے میرے لیے بھی خطرہ یا مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ خیر، دو ہفتے قبل جوہر ٹاؤن کی ایک کافی شاپ پر ملاقات ہوئی۔ دو گھنٹے میں چار کافیاں پینا پڑیں۔ بات سے بات چلتی رہی اور وقت رخصت انہوں نے پھر کہا کہ ابھی آپ یہ سب نہیں لکھیں گے۔ جب وقت آئے تب لکھیں۔۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے ابھی یہ سب پڑھ کر کئی لوگوں کو خارش ہوگی کہ ابھی نہیں لکھنا تو بتانے کا فائدہ۔ سچ کو ابھی لکھیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کو یہ سینس نہیں ہوتی سچ کی قیمت کون چکائے گا۔ لکھنے والا چاہے وبال جان میں مبتلا ہو جائے لیکن ان کو انفوٹینمنٹ چاہئیے۔ بتانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہسٹری لکھی جا رہی ہوتی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ کئی لوگوں کے علم میں ہوتا ہے۔ ایسے موضوعات میں خطرہ کسی ادارے یا محکمے سے نہیں ہوتا۔ خطرہ جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے ہوتا ہے۔

