نواب آف بہاولپور کا علمی کارنامہ
نواب آف بہاولپور کا علمی کارنامہ یہ ہے کہ اُن کی ہدایت پر 1944ء میں دیوان فرید ترجمہ اور شرح کے ساتھ شائع ہوا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو خواجہ فرید کے کلام اور ان کے دیوان بارے جاننے کا موقع ملا بلکہ اس کام نے نواب آف بہاولپور کی قدرو منزلت میں بھی اضافہ کر دیا۔ یہ کام ریاست بہاولپور کی اہم شخصیت مولانا عزیز الرحمن کی نگرانی میں ہوا اور اس کام کیلئے جید علماء پر مشتمل ایک کمیٹی نے کیا۔ اس دیوان کو اب بھی دیگر دواوین کے مقابلے میں مستند سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ دیوان نایاب ہے وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نئے دیوان کی اشاعت کیلئے توجہ کریں تو بہت بہتر ہو گا کہ ان کا تعلق اس علاقے سے ہے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ خواجہ فرید کی ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زائد اراضی حکومت پنجاب کے پاس ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ محکمہ اوقاف نے بھی آج تک اس اہم کام کی طرف توجہ نہیں دی۔ خواجہ فرید کی شخصیت اس قدر اہم ہے کہ آپ کے عہد میں انگریز راج عین عروج پر تھا مگر خواجہ فرید نے نہ صرف یہ کہ کسی انگریز عہدیدار سے ملنا گوارہ کیا بلکہ انگریزوں کو اہمیت دینے کی بجائے یہاں تک لکھا کہ:
اپنی نگری آپ وسا توں
پٹ انگریزی تھانے
اس کے علاوہ بھی خواجہ کا کلام گہرے کا مطالعے کا متقاضی ہے کہ انہوں نے اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے اس قدر پیار کیا کہ اپنی روہی (چولستان) کے کانٹوں کو شمشاد صنوبر اور ریت کے ٹیلوں کو کوہ طور سے تشبیہ دی۔ خواجہ فریدؒ نے سات زبانوں میں شاعری کی مگر سب سے زیادہ پذیرائی ان کے سرائیکی کلام کو ملی، خواجہ فرید کا کلام ایک سو سال سے سرائیکی وسیب کے دلوں پر راج کر رہا ہے، ان کے پائے کا شاعر سوسال بعد بھی پیدا نہیں ہوا، علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق علامہ صاحب خواجہ فرید کے مداح تھے، آخری عمر میں خواجہ فرید کا دیوان ان کے سرہانے رہتا اور وہ دیوان پڑھتے رہتے اور زارو قطار روتے رہتے۔ خواجہ فریدؒ کی سرائیکی شاعری بارے علامہ اقبال نے فرمایا کہ خواجہ فریدؒ کے کلام میں مجھے عالمگیریت نظر آتی ہے مگر افسوس کہ یہ کلام خاص علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے آج علامہ اور ان کے کلام کا بہت چرچا ہے مگر علامہ نے بعد میں کہا:
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
لیکن علامہ اقبال سے بہت پہلے خواجہ سئیں نے فرمایا:
جے کوئی چاہے فقر فنا کوں
اپنے آپ کوں گولے
پاکستان کے تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ شاعر احمد فراز نے کہا:
ڈھونڈ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے ممکن ہے تجھے خرابوں میں ملیں
مگر خواجہ فریدؒ نے اس موضوع پر ایک سو سال پہلے جو بات کی وہ نہ صرف حقیقت کے قریب بلکہ شک کے عیب سے پاک اور دھرتی کی محبت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، خواجہ صاحب نے فرمایا:اُتھ درد منداں دے دیرےجتھ کرڑ، کنڈا، بوئی ڈھیرےاس طرح ہندوستان، ایران اورپاکستان کے بہت سے شاعر اپنی شاعری میں اپنے محبوب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ تم میری آنکھوں میں آجائو، میں آنکھیں بند کر لوں، تجھے کوئی نہ دیکھے اور میں دیکھتا رہوں، مگر خواجہ صاحب نے اس موضوع پر جو بات کی یا شعر موزوں کیا وہ بہت بڑی بات ہے اس کا مفہوم نہ صرف وسیع بلکہ عالمگیر ہے اور ایسی بات عالمگیر سوچ رکھنے والی کوئی شخصیت ہی کر سکتی ہے اور آپ فرماتے ہیں:
اَکھیاں دے وچ قطر نہ ماوے
سارے سجن سماندے
سٹ تے ورد فرید ہمیشہ
گیت پرم دے گاندے
میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ فرید بہت بڑا شاعر ہے ان کے کلام کو عالمی ادب کیلئے ترجمہ کرنے اور اسے پوری دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے آج کی بدامنی دہشت گردی اور مادہ پرستی کے دور میں خواجہ فریدؒ کے امن، پیار و محبت کے پیغام پوری دنیا میں عام کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہمارے ادارے اور اکابرین یہ کام کر دیں تو یہ بات نہ صرف امن عالم کیلئے مفید ہو گی بلکہ سرائیکی قوم کیلئے بھی عزت و توقیر کا باعث بنے گی۔
خواجہ فریدؒ کی جان پہچان کے حوالے سے ان کا بڑا حوالہ سرائیکی شاعری کا ہے، فریدیات کے ماہرین ایک عرصے سے لکھتے آرہے ہیں علامہ رشید احمد طالوت صاحب نے سب سے پہلے ایک سو صفحات سے زائد دیوان فرید کا مقدمہ لکھ کر اس کام کی اچھی بنیاد بنائی، اس طرح ڈاکٹر مہر عبدالحق، مولانا نور احمد فریدی، ظامی بہاولپوری، دلشاد کلانچوی، صدیق طاہر مرحوم جیسے بزرگوں سمیت بہت اصحاب نے کلام فرید پر تبصرے لکھے ہیں اور آج بھی یہ سفر جاری ہے۔ مگر ایک سوال پھر تشنہ رہے گا کہ جائیداد محکمہ اوقات پنجاب اور وارثان خواجہ فریدنے علمی میراث کے احیاء اور فروغ کیلئے کیا کیا؟ یہ سوال ابھی تشنہ ہے۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر وارث میراث پدر کیونکر ہو
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے دیوان فرید کی طباعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش کریں گے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کی خواجہ فرید چیئرفنکشنل کرائیں، فرید محل واگزار اور کوٹ مٹھن میں فکر فرید یونیورسٹی کے ساتھ ایوان اقبال لاہور کی طرز کا ایوان فریدؒ قائم کرائیں تو ان کے کارنامے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ بھی کہوں گا کہ وسیب کے لوگ ہمیشہ برسراقتدار رہے۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور سپیکر سمیت کون سا ایسا عہدہ ہے جو وسیب کے پاس نہ رہا ہو؟ مگر کسی نے اپنے وسیب کیلئے کوئی کام نہ کیا۔ آج ان کا نام ایک گالی بنا ہوا ہے اور ہر طرف سے طعنہ ملتا ہے کہ تمہارے اپنوں نے وسیب کیلئے کون سا تیر مارا؟ آج اگر وزیر اعظم عمران خان او اور وزیر اعلیٰ سردارعثمان بزدار کچھ نہیں کرتے تو مجھے ڈر ہے کہ وسیب کیلئے ایک اور طعنے کا اضافہ نہ ہو جائے۔