جنوری کی یادیں
نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے، جنوری عیسوی کیلنڈر کا پہلا مہینہ، کہا جاتا ہے کہ اس کا نام رومیو کے ایک دیوتا جینس کے نام پر رکھا گیا، جیسا کہ ہم نے گزشتہ روز کے کالم میں عرض کیا تھا کہ 2020ء دنیا کے لئے ہولناک ثابت ہواکہ کورونا کی بیماری نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ خدا کرے کہ2021ء خوشیوں کا سال ثابت ہو اور سال کا ہر لمحہ اور ہر دن انسانیت کیلئے بہتری کا باعث ہو، آج ہم بات کریں گے تاریخ کے حوالے سے کہ اس دن قومی اور عالمی سطح پر کیا واقعات رونما ہوئے۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو جنوری کی یادوں میں ایک یہ ہے کہ 2 جنوری 1492ء کو سپین کے سب سے پر شکوہ اور تاریخی شہر غرناطہ پر عیسائی افواج نے قبضہ کر لیا، اس طرح ہسپانیہ پر عربوں کے 700 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ 2 جنوری1642ء کو عثمانی حکمران محمود چہارم اور 1699ء میں سلطان عثمان سوم پیدا ہوئے۔
جنوری کے واقعات میں یہ بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہیں کہ 2 جنوری1757ء کو ہندوستان کی آخری ریاست بنگال پر انگریزوں نے قبضہ کر کے پورے ہندوستان کو زیر کر لیا۔ 2 جنوری 1839ء کو فرانس کے لوئی ڈاگیورے جسے فوٹو گرافی کا بانی کہا جاتا ہے نے چاند کی پہلی تصویر کھینچی۔ 2 جنوری 1906ء کو ولس ہیوی لینڈ کیریئر نامی شخص کو " ہوا کی ٹریٹمنٹ کرنے والے آلے کے پیٹنٹ حقوق دیئے گئے، اس آلے کو آج ایئر کنڈیشنر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 2 جنوری 1919ء کو آئرلینڈ میں برطانیہ کے خلاف بغاوت شروع ہوئی، 2 جنوری 1929ء کو امریکا اور کینیڈا کے درمیان نیاگرا آبشار بارے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 2 جنوری 1944ء کو برطانیہ نے جنگی مقاصد کیلئے پہلی بار ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا۔ 2 جنوری 1947ء کو بر صغیر کے رہنما مہاتما گاندھی نے مشرقی بنگال میں امن مارچ شروع کیا۔ 2 جنوری1964ء کو ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب ہرایا۔
اس ماہ قومی و سیاسی افق پر کئی اہم واقعات رونما ہوئے، جنوری میں رفیق تارڑ صدر منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی نے گزشتہ سال آرمی ایکٹ کی متفقہ منظوری دی اور آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی۔ عمران خان کی ریحان خان سے شادی کا اعلان ہوا، جنوری کرشماتی شخصیت کے حامل ذوالفقار علی بھٹو، قاضی حسین احمد، ظفر اللہ خان جمالی کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ اردو ادب کی نامور شخصیت سعادت حسین منٹو اور نامور پاکستانی طالبہ ارفع کریم رندھاوا، پیر صاحب پگاڑا، جنرل آصف نواز اور قاضی حسین احمد بھی اسی مہینے جدا ہوئے۔ سانحہ چارسدہ یونیورسٹی بھی جنوری میں ہوا، سلمان تاثیر، محسن نقوی اور علامہ ضیاء الرحمن فاروقی قتل کیے گئے، سابق گورنر سندھ فخر الدین جی ابراہیم گزشتہ سال وفات پا گئے، سانحہ ساہیوال بھی جنوری میں رونما ہوا جس میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی فائرنگ سے خلیل کی فیملی جاں بحق ہو گئی۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ثاقب نثار کی جگہ عہدہ سنبھالا۔ 11 جنوری 2018ء کو قصور میں درندہ صفت ملزم عمران علی نے سات سالہ ننھی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔
جنوری کی ایک تلخ یاد کا حوالہ ضرور لکھوں گا کہ یہ ملتان کا واقعہ ہے اور آج بھی اس واقعے کو سب لوگ دہراتے ہیں۔ واقعہ اس طرح ہے کہ 2 جنوری 1978ء کو کالونی ٹیکسٹائل ملز کے پرُامن ہڑتالی مزدوروں پر پولیس نے اندھادھند گولی چلا دی۔ کتنے مزدور شہید ہوئے؟ آج تک پتا نہیں چل سکا۔ سرکاری موقف کے مطابق چودہ، مزدور تنظیموں کے مطابق 133۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا یہ بد ترین دن تھا۔ یہ قتل ضیا آمریت کا بد ترین واقعہ تھا۔۔ 3 جنوری 1978ء کے اخبارات میں ایک خبرغیر نمایاں انداز میں شائع ہوئی۔ خبر یہ تھی کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں پولیس فائرنگ سے پانچ مزدور جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔
یہ ضیاء الحق کے مار شل لاء کا ابتدائی دور تھا۔ اخبارات پر سنسر شپ عائد تھی اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ناممکن تھا۔ اگلے روز بعض اخبارات نے شہداء کی تعداد دس بیان کی اور پھر سرکاری ذرائع کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ فائرنگ میں پندرہ مزدور لقمۂ اجل بنے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی۔ اس المناک واقعے میں کتنے مزدور شہید ہوئے یہ معمہ آج 37سال بعد بھی حل نہیں ہو سکا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا احاطہ نعشوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا تھا جنہیں 2اور 3جنوری کی درمیانی شب ملز انتظامیہ نے سرکاری اہلکاروں کی مدد سے ٹھکانے لگا دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والا یہ مزدوروں کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔
جن کی لاشیں رات کی تاریکی میں غائب کر دی گئیں ان کے ورثامدتوں ان کی راہ تکتے رہے۔ کتنے لوگ جان سے گئے؟ یہ معمہ کبھی حل نہ ہو سکا۔ شہداء کی تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات گردش کرتی رہیں۔ پھر کچھ روز بعد روزنامہ امروز، نے انور امروہوی کی بنائی ہوئی ایک تصویر شائع کی۔ یہ کالونی ملز کے سائیکل سٹینڈ پر موجود ان 80 سے زیادہ سائیکلوں کی تصویر تھی جنہیں 2جنوری کے بعد کوئی لینے نہیں آیا تھا۔ یہ تصویر ایک مکمل خبرتھی۔ یہ تصویر ظاہر کرتی تھی کہ جسے اظہار کا ہنر آتا ہو اس کے لئے پابندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انور امروہوی کی تصویر سے ایک بات تو طے ہوئی کہ اس فائرنگ میں 80سے زیادہ ایسے مزدور شہید ہوئے جو سائیکل پر گھر سے آئے تھے۔ پیدل آنے والے جو لوگ لقمۂ اجل بنے اُن کی تصویرتو انور امروہوی بھی تلاش نہیں کر سکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعے میں 150 مزدور جان سے گئے۔