1.  Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Bharat Ka Manfi Kirdar

Bharat Ka Manfi Kirdar

بھارت کا منفی کردار

دنیا کے سامنے بھارت کو بطور سیکولر اسٹیٹ پیش کیا جاتا ہے، لیکن عملاً وہاں آر ایس ایس جیسی کٹر مذہبی جماعت حکومت کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ دنیا کے صاحب علم عشروں سے بھارت کو ایک ہندو ریاست کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے لیکن ہمارے ملک میں مذہبی انتہا پسندی نہیں ہے۔ پاکستان کی قیادت مسلسل یہ کوشش کر رہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے لیکن بھارت نے پاکستان کی کوششوں کی قدر نہیں کی اور مسلسل کشمیر کے حل کے راستے میں دیوار بنا کھڑا رہا۔ آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

کسی بھی حوالے سے کشمیر کے مسئلے کا جائزہ لیں تو پاکستان کا موقف ہر اعتبار سے درست معلوم ہوتا ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولے میں بھی یہی اصول کارفرما رہا ہے کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہو، وہ کسی مسلم ریاست کا حصہ بنیں یا آزاد رہیں، اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو آزاد اور مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے لیکن بھارتی قیادت نے مسلم اکثریت کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور جبراً کشمیر پر قابض رہا، اس دوران دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔

اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں واضح طور پر کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے۔ پاکستان اس حوالے سے مستقل کوششیں کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرحدوں پر کشمیر کی حیثیت انتہائی اہم ہے، اسی تناظر میں بھارت غیر اصولی طور پر کشمیر پر قابض ہے۔ ہندوستان 8 لاکھ سے زیادہ فوجیوں کے ذریعے کشمیر کے ایک حصے پر قابض ہے۔ یوں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔

یوں کشمیر کے عوام اپنے آپ کو اپنی آزادی سے محروم سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں خون خرابہ ہوتا رہتا ہے جس کی ذمے داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ تقسیم کے بعد مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو زبردستی متنازع بنا دیا گیا ہے۔ 72 سالوں میں بھارتی قیادت کشمیر کو متنازع بنا رکھا ہے، ادھر پاکستان آزاد کشمیر میں ترقیاتی کام کر رہا ہے البتہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت چونکہ کسی قیمت پر کشمیریوں کو آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے آئے دن کشمیر میں خاک و خون ہوتا رہتا ہے خاص طور پر سرحدی علاقوں میں حالات کبھی پرامن نہ رہے۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان چونکہ ایک چھوٹا ملک ہے اس لیے کشمیر کا کوئی حل رائے شماری کے ذریعے نہیں نکالا جا رہا ہے، اس کے برعکس بھارت ہمیشہ سے کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی غیر اصولی وجہ ہے کہ دونوں کشمیر میں ہمیشہ خونریزی ہوتی رہتی ہے۔ کسی حوالے سے بھی کشمیر پر بھارت کا قبضہ ناجائز ہے۔ آج کی جدید دنیا میں حق خود ارادی کی بڑی اہمیت ہے جسے بھارت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس تنازع کی وجہ کشمیری مستقل خونریزی کا شکار رہتے ہیں، اگر بڑی طاقتیں انسانوں کے حق خودارادی کا احترام کریں تو کم ازکم کشمیر میں خونریزی کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ مقبوضہ کشمیر کو قبضے میں رکھنے کے لیے 8 لاکھ سے زیادہ فوج لگا رکھی ہے۔

یہ ایک فطری بات ہے کہ مذہب کے حوالے سے بھی کشمیریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کشمیر کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے نکالا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ بھارت اصولوں کے بجائے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں جمہوریت کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ طاقت کے ذریعے کشمیریوں پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے اس تنازع کی وجہ دونوں ملک اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے طاقت کا سہارا لے رہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے، اگر دونوں ملک فوجی تیاریوں سے کنارہ کش ہو جائیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کریں تو نہ صرف دونوں ملکوں کے اقتصادی حالات بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ خونریزی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

بھارتی قیادت نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ مسلم اکثریت کا یہ علاقہ مذہب کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان سے جڑا ہوا رہے گا۔ کشمیر دونوں ملکوں کی راہ میں ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے، اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیکولر بھارت کشمیر میں مذہبی انتہا پسند بنا ہوا ہے جبکہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی مخالفت کی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ دونوں کشمیر میں عوام سخت غربت کا شکار ہیں اور اس کی ذمے داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔

دنیا اب زمین سے نکل کر چاند پر جانے کی کوشش کر رہی ہے اور بھارتی قیادت عوام کو تعصبات کی زنجیروں میں جکڑ کر ترقی کی سمت میں آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ایک ہزار سال تک ایک ساتھ رہنے والے کشمیر کے عوام نہ صرف سخت معاشی مشکلات سے دوچار ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ایک دوسرے کا دشمن بنائے رکھنا چاہتی ہے۔

پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے لیکن پاکستانی عوام سیکولر کردار کے حامل ہیں جس کا اندازہ ان الیکشنوں سے ہوتا ہے جن میں کشمیری عوام نے کبھی مذہبی انتہا پسندوں کو ووٹ نہیں دیے، اس کے برخلاف سیکولر طاقتوں کی حمایت کی جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سیکولر کون ہے اور مذہبی انتہا پسند کون ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ کشمیر کے مستقبل کو مذہبی انتہا پسند برباد کر رہے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد جو خون خرابہ ہوا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس بدترین خون خرابے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے عوام میں اتنی نفرت بڑھی کہ لاکھوں انسان قتل کیے گئے جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی تھے، اس خون خرابے نے دونوں قوموں کو نہ صرف ایک دوسرے سے دور کردیا بلکہ ایسی دشمنی پیدا ہوگئی کہ دونوں مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، نفرتوں کے سمندر میں مذہبی رواداری کے حامیوں نے ادب اور شاعری کے ذریعے نفرتوں کو کم کرنے کی کوشش کی جو خون خرابے کی وجہ سے پیدا ہوئی اور ان عظیم لوگوں کی کوششوں سے آہستہ آہستہ خوف اور دشمنی میں کمی آتی رہی اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو دونوں قوموں کے درمیان محبت اور خلوص کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم فکری طور پر مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہیں اور ان کا روحانی رشتہ آر ایس ایس سے ہے جو بھارت کی بدترین مذہبی انتہا پسند جماعت ہے اور بھارت کے وزیر اعظم اس جماعت کے فکری شاگرد ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانی قدریں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو گئی ہیں، اس کی جگہ حیوانیت نے لے لی ہے اگر دونوں ملکوں کی قیادت حقائق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتی ہے تو کشمیر کے مسئلے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے دونوں ملکوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آج بھی دونوں قوموں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ قوتیں طاقتور ہیں اور کسی قیمت پر دونوں ملکوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ دیکھنے کے لیے تیار نہیں، ایسی صورتحال میں کسی ادارے کو مثبت رول ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا ایک طاقتور ترین ذریعہ اظہار ہے اگر میڈیا دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دوریاں ختم کرکے نزدیکیاں پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے بہت مثبت نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar