1.  Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Awami Jamhooriat (2)

Awami Jamhooriat (2)

عوامی جمہوریت (2)

اپوزیشن کشمیر کے انتخابات میں شکست کے بعد ضمنی انتخابات میں بھی شکست کھا چکی ہے لیکن سیاست کے اس کھیل میں دھرنے اور احتجاج کی دھمکی دی جا رہی ہے اور تحریکیں بھی چلانے کی بات ہو رہی ہے۔

ہوا یہ ہے کہ جلسوں جلوسوں نے ہماری اپوزیشن کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ وہ اب بھی عوام میں مقبول ہیں اور جیت سکتی ہیں لیکن لگاتار شکست کے بعد احساس ہونا چاہیے تھا کہ اب عوام میں ان کی مقبولیت میں کمی آ گئی ہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

پاکستان میں بھلے برے انتخابات بھی ہوتے رہے ہیں اور انتخابات یہ بھی سکھاتے ہیں کہ انتخابات 5 سال بعد ہوتے ہیں اور پانچ سال تک اپوزیشن انتخابات کی تیاری کرتی ہے عوام کی خدمت کرتی ہے پھر الیکشن میں حصہ لیتی ہے۔ اپوزیشن کیا ہے مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کچھ نہیں پی پی پی بھی ایک بڑی جماعت ہے کہ ان کے بعد اپوزیشن میں طاقت ہی نہیں رہی لیکن اقتدار کی کشش نے اپوزیشن کی سوچ بدل دی ہے کہ وہ نہ حقائق کو سمجھنے کے لیے تیار ہے نہ ماننے کے لیے تیار ہے۔

اس حوالے سے بات خاندانی سیاست کی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغلیہ سیاست دوبارہ ہمارے ملک میں آگئی ہے اور ولی عہد اور ملکاؤں کا دور پھر زندہ ہو گیا ہے، چونکہ خاندانی سیاست خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے لہٰذا عام آدمی خواہ وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ اور اہل کیوں نہ ہو وہ سیاست میں آسکتا ہے اور نہ سیاستدان بن سکتا ہے اب تک ہم جس سیاست کا نظارہ کر رہے ہیں وہ عوامی سیاست نہیں بلکہ خالص خواص سیاست ہے جس میں عام آدمی تماش بین کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں۔

جب تک ملک میں اشرافیائی خاندانی حکمرانیاں باقی ہیں، عوام پستے رہیں گے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہم اشرافیائی اور خاندانی جمہوریت کے کنویں میں گرے رہیں گے عوام کی ترقی ایک خواب رہے گی۔ عوامی جمہوریت کا قیام ہماری اولین ضرورت ہے عوامی جمہوریت کے نام پر مجھے 1967 کا دور یاد آ رہا ہے۔

یہ 1967 کی بات ہے ایک میٹنگ کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا، ہندوستان کے بزرگ کامریڈ سید مطلبی فرید آبادی آئے ہوئے تھے، کراچی سے جانے والوں کا مسکن فرید آبادی صاحب کا گھر تھا۔ میٹنگ میں ایجنڈے کا بڑا آئٹم عوامی جمہوریت تھا۔

اس ایشو پر بھرپور گفتگو ہوئی اور طے یہ پایا کہ عوامی جمہوریت کے لیے مہم چلائی جائے سو اس حوالے سے سب سے پہلے ایک رسالہ نکالنا طے پایا۔ ہم اس کے مستقل لکھنے والوں میں شامل تھے۔ ہمارے علاوہ سی آر اسلم، مطلبی فرید آبادی وغیرہ بھی لکھنے والوں میں شامل تھے یہ رسالہ پورے پاکستان میں جاتا تھا اس کے ایڈیٹر مطلبی فرید آبادی تھے یعنی 1967 ہی میں عوامی جمہوریت کی بات چل نکلی تھی لیکن چونکہ جاگیرداری پارٹیاں مضبوط تھیں اور جاگیردارانہ نظام بھی موجود تھا، عوامی جمہوریت پابندی سے نکلتا رہا اور ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک کے باہر بھی جاتا تھا۔

عوامی جمہوریت کی مہم جاری تھی لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا تھا لیکن بدقسمتی سے عوامی جمہوریت کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی لیکن عوامی جمہوریت کا شعور بیدار ہوتا رہا۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo