Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Rukhsat Ko Do Baras Guzar Gaye

Rukhsat Ko Do Baras Guzar Gaye

رخصت کو دو برس گزر گئے

یہ دس برس پرانی بات ہے جب کسی پاکستانی عورت نے سپریم کورٹ بارکی صدارت کا انتخاب جیتا تھا۔ یہ عاصمہ جہانگیر تھی۔ وہ عورت جس نے زندگی کی آخری سانس تک پاکستان میں اقلیتوں، عورتوں، بھٹہ مزدوروں اور کچلے ہوئے طبقات کا مقدمہ لڑا۔ ہاتھ سے ٹیلی فون کا ریسیورگرا اور پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے بے جگری سے لڑنے والی عورت زیر لب شاید یہ مصرعہ پڑھتے ہوئے سو گئی کہ:

" رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا"

یہ خبر مجھے دبئی میں کامران عباس نے دی تھی، جس پر میں نے یقین نہیں کیا تھا لیکن یقین کرلینے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔

اس وقت مجھے دس برس پرانی اپنی ایک تحریر یاد آرہی ہے جو میں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر منتخب ہونے کے بعد لکھی تھی۔ اس ملک میں جہاں لڑکیوں کے اسکول جلائے جاتے ہوں، جہاں کے آئین سے آج تک جنرل ضیاء الحق کے سیاہ قوانین قلم زد نہ کیے جاسکے ہوں، جہاں عورتوں کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں ہوں، وہاں عاصمہ کی یہ کامیابی صرف پاکستانی عورتوں کی ہی نہیں، ان تمام جمہوریت پسند اور کشادہ دل مردوں کی بھی کامیابی تھی جو انسانوں کو ذہانت، حوصلہ مندی اور جرأت اظہار کے ترازو میں تولتے ہیں، صنفی حوالوں سے نہیں دیکھتے۔

عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی یاد آئے جو اپنے عہد کے اہم سیاستدانوں میں تھے۔ جنھوں نے اہم سرکاری ملازمت سے اس لیے استعفیٰ دیا کہ وہ اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے جو ایوب خان کی فوجی حکومت کے چنگل میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے سیکریٹری اور مشرقی پاکستان پر گزرنیوالی قیامت کے خلاف آواز بلند کرنیوالے مٹھی بھر سیاستدانوں میں سے ایک۔ صاحب ثروت لیکن جیل جانے کا ایسا شوق کہ ایوب، یحییٰ، ضیاء، بھٹو سب ہی کی حکومتوں میں جیل جاتے رہے یا گھر پر نظر بند رہے۔

صبیحہ صلاح الدین نے اپنے والد کو زمین بیچ کر ادب کی خدمت کرتے دیکھا تھا۔ بیاہ کر ایک رئیس گھرانے میں آئیں تو یہ دیکھا کہ میاں زمین بیچ کر سیاست کرتے ہیں۔ جیلانی صاحب کو سزا دینے کے لیے زمینیں بہ حق سرکار ضبط ہوئیں، گھوڑوں کے در بہ در ہونے کی نوبت آئی۔ روٹی کہاں سے کھائی جاتی کہ ملک غلام جیلانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے تو وکالت کر نہیں سکتے تھے۔ بہ قول عاصمہ " گھوڑوں کو ریس کورس بھیج دیا گیا۔ گھوڑے جیت جاتے تو ہماری عید ہوجاتی۔ ہارتے تو سارا معاملہ گڑ بڑ ہوجاتا۔"

عاصمہ اور حنا دونوں اسکول کے مرحلوں سے گزرکر کنیرڈ کالج پہنچیں تو عاصمہ اپنے والد کے مقدموں اور سیاسی سرگرمیوں میں ان کی سیکریٹری ہوگئی جسے تنخواہ نہیں ملتی تھی لیکن جو قانون اور سیاست کے منجھے ہوئے دانشور باپ کی نگرانی میں مستقبل کی تربیت حاصل کر رہی تھی۔ جی داری، بے دھڑک بات کہہ دینے کا رویہ اور حق بات پر جم جانے کا جذبہ اس کے خون میں گردش کرتا تھا۔ اس نے ہوش سنبھالا تو جنرل ایوب کا مارشل لاء دیکھا جس کے خلاف اس کے نانا مولانا صلاح الدین مرحوم کھل کر بولتے تھے۔ پھر یہ دیکھا کہ ایک کے بعد ایک مارشل لاء آتا رہا اور ملک سے قانون کی حکمرانی رخصت ہوتی گئی۔ انصاف کو گہرا دفن کیا گیا۔ آزادی اظہارکا گلا گھونٹا گیا۔ خاموش رہ کر زندگی گزارنا اور اچھے منصب پر فائز ہونا آسان ہوتا گیا اور ظلم ونا انصافی کے خلاف لکھ کر اور بول کر جیل جانا، ذریعۂ روزگار سے محروم کر دیا جانا، "غداروں " اور "وطن فروشوں " کی فہرست میں نام لکھوانا اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے توقتل ہوجانا بھی آسان ہوتا گیا۔

عاصمہ نے اپنے والد ملک جیلانی کی زندگی میں اور اس کے بعد سے دہائیوں تک ایک بہت مشکل اور بہت شاندار زندگی گزاری۔ یہ زندگی اس کے لیے بہت مشکل ہوتی اگر اس کی باہمت والدہ، قانون داں اور دانشور بہن حنا، بعد میں اس کے شوہر جہانگیر اور حقوق انسانی کے علمبردارآئی اے رحمان اس کی پشت پر نہ ہوتے۔ اس کی قانون دان دوستوں کا وہ حلقہ نہ ہوتا جس نے اے جی ایچ ایس (عاصمہ، گل رخ، حنا، شہلا) لیگل ایڈ آفس قائم کیا۔ بے آسرا عورتوں، مردوں اور بچوں کے مقدمے لڑے۔ بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے اور توہین رسالت کا نام لے کر ذاتی بغض و عناد کا نشانہ بننے والے عیسائیوں، ہندوئوں اور پاکستان کی دوسری اقلیتوں کو انصاف دلانے کے لیے جان کی بازی لگائی۔ قانون شہادت کی مار سہنے والی بے گناہ لڑکیوں اور عورتوں کی دست گیری کی۔ وہ ویمنز ایکشن فورم کی بنیاد گزاروں میں سے ایک تھی اور ایچ آر سی پی کا قیام بھی اسی کا کارنامہ تھا۔

عاصمہ ایک خوشحال گھرانے کی بیٹی تھی۔ کھلنڈری اور حاضر جواب۔ اس کے والد ملک غلام جیلانی پاکستان سول سروس سے وابستہ تھے لیکن ان کا دل عوام کے لیے دھڑکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ریٹائر ہوتے ہی انھوں نے سیاست اختیارکی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سابق مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ انھوں نے حکمرانو ں کی مخالفت کی لیکن کوئی ان کے ساتھ نہ تھا۔ وہ حکمرانوں کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر تن تنہا کھڑے ہوگئے۔ سابق مشرقی پاکستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے خلاف حکمران ملک غلام جیلانی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ غدار کہے گئے اور جیل بھیج دیے گئے جہاں انھوں نے کئی برس گزارے۔ 1967 میں سز ا کے طور پر ان کی زمینیں بہ حق سرکار ضبط کر لی گئیں۔ ان کی بیوی صبیحہ غلام جیلانی ان خواتین میں سے تھیں جنھوں نے اس دور میں جدید تعلیم حاصل کی جب لڑکوں کے لیے بھی اسے کچھ زیادہ ضروری نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اردو کے ممتاز ادیب اور ادیب گر مولانا صلاح الدین احمد کی بیٹی تھیں۔ یہ وہی صلاح الدین احمد ہیں جن کا ادبی مجلہ " اردو دنیا " لاہور سے نکلتا تھا۔ ڈھائی تین سو صفحو ں کا اعلیٰ ادبی پرچا جس کی قیمت صرف ایک روپیہ ہوتی تھی۔

22 دسمبر1971 کو یحییٰ حکومت نے عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی کو مارشل لا کے قانون کے تحت گرفتار کرکے ملتان بھیج دیا۔ ان کا مقدمہ بیرسٹر منظور قادر نے لڑا جسکے دوران عاصمہ ہر قدم پرکمرئہ عدالت میں ان کے ساتھ رہی۔ یہ وہ دن تھے جب عاصمہ نے حقوق انسانی کی جدوجہد کا اولین سبق لیا۔ عاصمہ نے ان دنوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ہر وقت بنیادی حقوق اور بالغ حق رائے دہی کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں، اس وقت ہم بچے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ بالغ حق رائے دہی کس چڑیا کا نام ہے۔ میں تو صرف یہ جانتی تھی کہ میرے والد اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ امی کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ابا جب گرفتار ہوتے اور جیل جاتے تو وہ کار بیچ دیتیں اور ہم لوگ تانگے میں سفر شرو ع کر دیتے۔ ہمارا گھرکرائے پر چڑھا دیا جاتا اور ہم نانا (مولانا صلاح الدین) کے گھر چلے جاتے جہاں ہم ڈریسنگ روم میں رہتے۔ عاصمہ نے اس نوجوان سے دھواں دھار عشق کیا جس کے گھرکی دیوار اس کے گھر سے ملی ہوئی تھی، عشق کامیاب ہوا۔ اور وہ سسرال اور میکے کا لطف اکٹھے اٹھاتی رہی۔ تین بچوں کی ماں بنی لیکن عوام سے اور غریب طبقات سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ 1983میں ضیاء الحق کے دور میں اسے جیل ہوئی۔ 2007 میں وہ گھر میں نظر بند بھی کی گئی۔

اس کا کہنا تھا کہ انصاف ہمارے یہاں ایک نادرونایاب شے ہے۔ اس نے ججوں کی بحالی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موت سے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں اس کے دلائل کی گونج ہر طرف سنائی دی۔ 1983میں ویمن ایکشن فورم کی تشکیل میں اس کا بنیادی کردار تھا۔ شہلا ضیا، نگار احمد، روبینہ سہگل، نیلم حسین، فریدہ شہید، لالہ رخ، نگہت خان اور دوسری خواتین کے ساتھ مل کر اس نے جنرل ضیاء کے بنائے ہوئے سیاہ قوانین کے خلاف جم تم لڑائی لڑی۔

عاصمہ تین بچوں کی ماں تھی۔ اس نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے نے کہا تھا "جیل میں شب و روزگزارنے کے لیے لازم ہے کہ خود پر ترس نہ کھایا جائے اور سب سے اہم یہ بات ہے کہ کبھی اپنے بچوں کے بارے میں نہ سوچو۔ یہ فرض کرو کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان جیسے ملک میں سیاست میں سرگرم رہنے کے لیے جاننی اور سیکھنی چاہئیں۔" یہ جملہ کہنے کے لیے کس جگرکی ضرورت ہے اسے کوئی ایسی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ جس کے دل میں دوسرے بچوں کا درد بھی ہو اور جو ان بچوں کے لیے اپنے بچوں کو دائو پر لگا رہی ہو۔

یقین نہیں آتا کہ اس کی رخصت کو دو برس گزر گئے ہیں۔ اس کا جنازہ نگاہوں میں ہے۔ اسے آخری سفر پر روانہ کرتی، اس کے جنازے کو کندھا دیتی ہوئی عورتیں اور مرد، ایک ایسا منظر جو چشم فلک نے پہلے نہیں دیکھا تھا، لیکن فلک کج رفتار نے ہماری زمین پر پہلے کب ایسی عورت دیکھی تھی جس نے حقوق کی لڑائی کا سفرکم عمری سے شروع کیا اورآخری سانس تک لڑتی رہی۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Inam Bhai Se Mulaqaat

By Syed Mehdi Bukhari