Wednesday, 31 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mehran Khan
  4. Lamha e Mojood Ka Idrak Aur Zindagi Ka Safar

Lamha e Mojood Ka Idrak Aur Zindagi Ka Safar

لمحہ موجود کا ادراک اور زندگی کا سفر

انسان کی فطرت میں تجسس کا عنصر کھوٹ کھوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ اس لئے اسے ہر نئی چیز، ہر نئی ایجاد اور ہر آنے والا لمحہ اپنے جانب مائل کرتا ہے۔ نئی چیزوں سے انسان نئی نئی خوشیاں وابستہ کرلیتا ہے۔ نت نئی ایجادوں سے نت نئے کام لینے کے منصوبے بناتا ہے اور آنے والے نئے لمحوں سے وہ نئے عہد پیماں، امیدیں اور خوش فہمیاں دل میں بسا لیتا ہے۔

جیسے ہر نئے سال کے آنے پر انسان سوچتا ہے کہ اب کی بار میں نے زندگی میں ایک سو اسی ڈگری کی انقلابی تبدیلیاں لانی ہے، وہ تمام مقاصد و اہداف جو پچھلے سال ادھورے رہ گئے تھے اب کی بار ضرور حاصل کرنے ہیں۔ مختصر یہ کہ نیو ائیر ریزولوشن کے نام پر وہ "ماؤ زے تنگ" کے "گریٹ لیپ فارورڈ" اور "کلچرل ریولوشن" جیسے بڑے بڑے منصوبوں کے لئے کمر باندھ لیتا ہے۔ لیکن ان کا نتیجہ اکثر عمران خان کے "نیا پاکستان" اور "ریاست مدینہ" کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

وہ نئی چیز، وہ نئی دریافت اور وہ نیا پل جس کے حوالے سے سوچ کے ہم خوش ہوتے ہیں، وہ لمحہ موجود کی شکل میں جب ہم انسانوں کی دسترس میں آتا تو کچھ پل کی چمک کے بعد وہ ہمارے لئے پرانا، بے وقعت، بوسیدہ اور بے معنی ہو جاتا ہے اور انسان عموماً خود کو اسی پاتال میں محسوس کرتا ہے جس سے نکلنے کے لئے اس نے یہی راہ فرار اختیار کی تھی۔

یہ تذبذب اکتاہٹ کو جنم دیتی ہے اور اکتاہٹ طویل ہو جائے تو بیزاری بن جاتی ہے۔ یہ اکتاہٹ یا تو اسے اگے بڑھنے کا سامان فراہم کرتی ہے اور یا لمحہ موجود سے بیزار کرکے اس کے لئے یاد ماضی کو بہترین قرار دے کر اس میں گوشہء تسکین ڈھونڈنے کے لیے اسے دھکیل دیتی ہے۔

یاد ماضی اگر خوبصورت ہو تو انسان کو مدہوش کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جکڑ لیتی ہے۔ ماضی اگر بدصورت ہو تو ڈراؤنے خوابوں کے ڈراؤنے سایوں کی طرح انسان کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ ان ڈراؤنے سایوں کی ڈر سے وہ مستقبل کے خوبصورت خیالوں کو پلکوں پر سجا کے فرار کے اس شیطانی چکر میں پھنس جاتا ہے جو خود کو دھراتا رہتا ہے۔

ماضی کے ڈراؤنے خوابوں اور مستقبل کے خوبصورت خیالوں کے بیچ ہم اور ہمارا لمحہ موجود کہیں لاپتہ ہو جاتا ہے۔ ماضی کنواں بن جائے، مستقبل کھائی کا روپ دھار لیں اور لمحہ موجود سولی پر لٹک جائے تو ہم نہ ماضی کے رہتے ہیں، نہ مستقبل کے خیال ہمارے کام آتے ہیں اور زندگی جو لمحہ موجود کے تسلسل کا نام ہے وہ "فرانز کافکا" کے "میٹامرفاسز" کے "گریگور سامسا" سے بننے والے کاکروچ نما کیڑے کی طرح بے بسی سے رینگتی رہتی ہے۔

لیکن زندگی کو ہم نے سامسا کی طرح بے آسرا بھی نہیں چھوڑنا۔ کیوں کہ معجزے اب رونما نہیں ہوتے، جادو ٹونے سے زندگی بدلتی نہیں اور ایسے دم درود ابھی ایجاد نہیں ہوئے جو زندگی کو راہ راست پر لاسکے۔ ماضی اور مستقبل کی دو دھاری تلوار کو تھامے لمحہ موجود سے دوستی ہی ذریعہ نجات ہے، لمحہ موجود بدصورت ہی سہی لیکن کم از کم وجود تو رکھتی ہے اور وجود ہی خواب اور سراب کے بیچ واحد سچائی ہے۔ اس سچائی کو جتنی دیر سے ہم قبول کریں گے اتنے دیر سے ہم زندگی کے سٹیشن پر پہنچے گیں اور ہمیشہ دیر کرنے والے اکثر "منیر نیازی" کی طرح ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ زندگی کی ریل گاڑی چھوٹ جائے آؤں کہ لمحہ موجود کے ٹرین کی آخری بوگی میں سوار ہوکے زندگی کا سفر شروع کرے۔

Check Also

Balatar

By Dr. Ijaz Ahmad