Kya Maghrabi Mumalik Ke Siasi Nizam Ne Waqai Jamhuriat Hasil Karli Hai?
کیا مغربی ممالک کے سیاسی نظام نے واقعی جمہوریت حاصل کر لی ہے؟

دنیا بھر میں مغربی ممالک کو جمہوریت کا نمائندہ اور علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو اس ماڈل کی مثالی شکل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان ممالک نے سچی، خالص اور اصل جمہوریت حاصل کر لی ہے؟ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر فرد کی آواز برابر ہو، فیصلے عوامی مفاد کے تحت کیے جائیں اور ریاستی طاقت کو منتخب نمائندے عوام کی ہدایت کے تحت استعمال کریں۔ اگر ان پیمانوں پر مغربی جمہوریت کو پرکھا جائے تو تصویر کچھ مختلف نظر آتی ہے۔
مغربی معاشروں میں انتخابات تو باقاعدگی سے ہوتے ہیں، لیکن ان انتخابات پر اثر انداز ہونے والے عوامل اکثر عوامی مرضی سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ بڑی کارپوریشنیں، میڈیا ہاؤسز، لابیز، سرمایہ دار اور سیاسی فنڈنگ کرنے والے گروہ وہ قوتیں ہیں جو پالیسیوں کو شکل دیتے ہیں۔ عام ووٹر کی طاقت صرف ووٹ کے دن تک محدود ہوتی ہے، اس کے بعد نظام اُن ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جو دولت، رسائی اور طاقت رکھتے ہیں۔ ریاست کی پالیسیاں اکثر ان مفادات کے گرد گھومتی ہیں جو انتخابات کو مالی اور میڈیا سپورٹ دیتے ہیں۔ کیا ایسی جمہوریت کو حقیقی جمہوریت کہا جا سکتا ہے جہاں دولت کا اثر عوامی رائے سے زیادہ ہو؟
جمہوریت کی روح شفافیت، مساوات اور انصاف ہے، لیکن مغربی نظام میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ انتخابی مہمات پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور ایسے امیدوار ہی آگے آ سکتے ہیں جو بڑے مالی گروہوں کی حمایت حاصل کریں۔ مزدور طبقہ، اقلیتیں اور کمزور طبقات ووٹ تو دیتے ہیں مگر ان کی آواز اکثر فیصلہ ساز میزوں تک نہیں پہنچتی۔ یہ تضاد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مغربی جمہوریت میں شرکت سب کی ہے مگر فیصلے چند ہاتھوں میں محدود ہو چکے ہیں۔ عوام کی آواز کو طاقتور بنانے کے بجائے، کئی جگہوں پر سیاسی نظام نے عوام کو ایک رسم کا حصہ بنا دیا ہے جس کا حقیقی اثر کم ہو چکا ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغربی جمہوریت واقعی عوام کو وہی دیتی ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں؟ کئی ممالک میں عوام صحت، تعلیم، روزگار اور سماجی تحفظ کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن حکومتیں دفاعی بجٹ، بیرونی جنگوں، معاشی مفادات اور سیاسی اتحادوں پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ امریکہ کی مثال لیں جہاں دہائیوں سے عام شہری صحت کے نظام کی بہتری کا مطالبہ کر رہا ہے، لیکن سیاسی نظام اسے وہ سہولت نہیں دے سکا کیونکہ طاقتور مالیاتی ادارے اور کارپوریٹ مفادات اس کے راستے میں کھڑے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت میں فیصلہ عوام کرتے ہیں یا اُن سے زیادہ طاقتور حلقے جنہیں عوام نے منتخب ہی نہیں کیا؟
جمہوری اقدار میں اظہارِ رائے کی آزادی بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لیکن مغرب میں بھی یہ آزادی مطلق نہیں رہی۔ اجتماعی میڈیا مہمات، سیاسی نفرت انگیزی، غلط معلومات اور ایک مخصوص سوچ کو آگے بڑھانے والے ادارے عوامی رائے کو پراگندہ کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ عوام کو وہ حقیقت نہیں دکھائی جاتی جس کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے بلکہ ایک ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جو مخصوص گروہوں کے مفاد میں ہوتی ہے۔ نتیجتاً عوامی رائے اپنے اصل معنی کھو بیٹھتی ہے اور جمہوریت عوام کی حکومت سے زیادہ ایک سیاسی تھیٹر بنتی جا رہی ہے۔
آخر میں یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا مغربی دنیا کی موجودہ جمہوریت، جسے دنیا کے سامنے ایک مثالی نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، واقعی وہ جمہوریت ہے جس کا خواب فلسفیوں، مصلحین اور عوام نے دیکھا تھا؟ جمہوریت کا بنیادی مقصد عوام کو طاقت دینا ہے، لیکن مغربی سیاسی نظام میں عوام اور اقتدار کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہ تو اصلاح ممکن ہے نہ ہی جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ مغربی دنیا نے جمہوریت کی بنیاد ضرور رکھی، لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا انہوں نے حقیقی جمہوریت حاصل بھی کی ہے یا وہ آج بھی ایک ایسے سفر میں ہیں جس کا راستہ تو معلوم ہے مگر منزل کافی دور ہے؟

