Wednesday, 31 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Bangladesh Ka Mojuda Siasi Mizaj

Bangladesh Ka Mojuda Siasi Mizaj

بنگلہ دیش کا موجودہ سیاسی مزاج

اعلان کے مطابق بنگلہ دیش میں عام انتخاب آمدہ برس بارہ فروری کو ہونے ہیں جن کی سیاسی صف بندی جاری ہے۔ نئے اتحاد معرضِ وجود میں آرہے ہیں۔ ملک میں انتخابی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی 54 سالہ تاریخ میں عوامی لیگ کے بغیر انتخابی عمل مکمل ہوگا۔ سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا بھی شدید بیماری کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل نہیں مگر اُن کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سب سے بڑی اور مقبول قوت ہے۔ نیز پورے ملک میں فعال ہے جس کی قیادت کے لیے اُن کا بیٹا موجود ہے اِس لیے سیاسی دنگل حیران کُن ہونے کے باوجود دلچسپ ہوسکتا ہے۔

بنگلہ دیش کا موجودہ سیاسی مزاج اِس بنا پر اہم ہے کہ جماعتِ اسلامی سے پابندی ختم ہوچکی ہے وہ انتخابی قوت بننے کی سرتوڑ کوشش میں ہے اور انتخاب جیت کر حکومت تشکیل بنانے کی آرزومند ہے۔ جماعتِ اسلامی کی قیادت میں آٹھ جماعتی اتحاد بن چکا ہے۔ اِس کی خاص بات یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) اور طلبا کی نئی سیاسی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی(این سی پی) اِس میں شامل ہو چکی ہیں۔ اِس اتحاد کا دعویٰ ہے کہ ملک کے تمام تین سو حلقوں کے لیے مشاورت سے امیدواروں کی حتمی فہرست مکمل کرلی ہے جو ایک تیز رفتار پیش رفت ہے۔ ایسی کوششوں کے مثبت نتائج آنے سے جماعتِ اسلامی ملکی منظرنامے میں اہم حثیت کر سکتی ہے کیونکہ عبوری حکومت کی توجہ انتخابی عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے پر ہے وہ کسی سیاسی پلڑے میں وزن نہیں ڈال سکتی جس سے غیرجانبدارانہ تشخص داغدار ہو۔

جماعتِ اسلامی کی قیادت میں بننے والے اتحاد کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ طلبا رہنما اِس کاحصہ بن چکے جنھوں نے سوا برس قبل ایک زوردار تحریک سے حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ طلبا تحریک کے صفِ اول کے رہنما شریف عثمان ہادی کو دارالحکومت ڈھاکہ میں مارنے سے لوگوں میں غم وغصہ ہے۔ اب تو شائبہ نہیں رہا کہ بنگلہ دیش میں انقلاب مانچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی کا قتل منصوبہ بندی سے کیا گیا۔ دونوں قاتلوں کی فیصل کریم مسعود اور عالمگیر شیخ کے نام سے پولیس نے شناخت بھی کر لی ہے بقول پولیس دونوں قاتل اِس وقت بھارتی ریاست میگھالیہ میں ہیں۔

سیاسی نبض شناسوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ طلبا رہنماؤں سے عوامی ہمدردی بڑھائے گا مگر اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تمام تر مقبولیت اور ہمدردیوں کے باوجود اکثریت کی توقع رکھنا غلط ہے جس کے کئی عوامل ہیں۔ ایک تو یہ کہ طلبا کی ایسی جماعت جو ابھی نو آموز ہے جس کی پورے ملک میں تنظیم سازی تک نہیں ہوسکی لہذا ملک گیر جماعت نہیں کہاجا سکتا۔ دوم، شہروں جیسی مقبولیت دیہات میں ناپید ہے علاوہ ازیں جماعتِ اسلامی ایک مخصوص سوچ و فکر کی مقید ہے اِس کی شناخت سیاسی سے زیادہ ایک مذہبی جماعت کی ہے اور باوجود کوشش یہ مقبول عوامی جماعت نہیں بن پائی اِن عوامل کی بنا پر جیت کا اندازہ غلط ثابت ہوسکتا ہے۔

بظاہر امکان ہے کہ سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کے صاحبزادے طارق الرحمٰن اکثریت سے انتخاب جیت جائیں گے جو حال ہی میں برطانیہ سے اپنی سترہ سالہ جلا وطنی ختم کرکے 25 کوڈھاکا آئے ہیں جن کا لاکھوں لوگوں نے فقید المثال استقبال کیا ہے۔ اِس سے قبل حسینہ واجد جب برطانیہ سے بنگلہ دیش واپس آئیں تو اُن کے لیے بھی عوامی جوش و خروش کم و بیش ایسا ہی تھا۔ انھوں نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھال کر انتخاب میں حصہ لیا اور 2008 میں اکثریت سے حکومت بنائی اور ملک کی وزیرِ اعظم بن کر مقدمات اور گرفتاریوں سے مخالفین کا ناطقہ بندکر دیا جب خالدہ ضیا کی جماعت اور جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کی بے جا گرفتاریاں ہونے لگیں اور پھربے بنیاد مقدمات سے مخالفین کو پھانسی لگایا جانے لگا تو خالدہ ضیا تو ملک میں ہی رہیں لیکن اپنے فرزند طارق الرحمٰن کو برطانیہ بھیج دیا۔

حسینہ واجد تو ممکن ہے خالدہ ضیا کو بھی پھانسی لگوا دیتیں مگر وہ شاید عورت ہونے کی وجہ سے بچ گئیں لیکن اب ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے۔ ملک کے بدلے سیاسی مزاج میں حسینہ واجد اقتدار سے محروم اور بھارتی ریاست تری پورہ کے دارلحکومت آگرتلہ میں پناہ گزین ہیں۔ نیز عوامی لیگ بھی کالعدم قراردی جاچکی ہے اُن کی طویل ترین اقتدار کی منصوبہ بندی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ سیاسی مخالفین کو ختم کرتے کرتے آج وہ خود ملکی منظر نامے سے غائب ہیں اِس لیے بھلے خالدہ ضیا سیاسی و انتخابی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتیں لیکن اُن کا بیٹا سیاست کے ایک ماہر کھلاڑی کے طور پرموجود ہے۔ اُسے اپنے والد کی صدارت اور والدہ کی وزارتِ عظمیٰ کے ادوار کا تجربہ ہے اِس لیے انتخابی موشگافیوں اور چالوں سے بخوبی آگاہ ہوگا۔ اِس لیے آٹھ جماعتی اتحاد کو شہ مات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام قیاس یا اندازہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے اگلے وزیرِ اعظم طارق الرحمنٰ ہو سکتے ہیں جن کی ایک خامی جو کھٹکتی ہے وہ یہ کہ اپنی والدہ کی طرح چین اور پاکستان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اِس کے برعکس بھارت سے بھی تعلقات بڑھا سکتے ہیں۔

یہ تیسری دنیا کے ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی رہنما عوامی بہبود پر توجہ دینے یا ملکی معیشت مضبوط کرنے پر حریف سیاستدانوں کی تذلیل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنا زاتی کردار ٹھیک نہیں کرتے جیبیں بھرنے اور نفرت پھیلانے کو ہی اصل سیاست سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسی بنا پر نہ صرف عوام میں اجتماعی سوچ پیدا نہیں ہوتی بلکہ ملک بھی سیاسی استحکام اور حقیقی جمہوریت سے محروم رہتا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر سفر کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

جنوبی ایشیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے برطانیہ نے یہاں لڑاؤ اور حکومت کرو کی بنیاد پر طویل عرصہ حاکمیت کی اب بھارت کی شدت پسند حکومت خطے میں بالادستی کے لیے کوشاں ہے اور دہشت گردی سے ہمسایہ ممالک میں عدمِ استحکام کو فروغ دے رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں حکمران کا فیصلہ کرنا عوام کا حق ہے لیکن بھارت ایسا نہیں چاہتا۔ اگر وہ حسینہ واجد کو دوبارہ حکومت دلانے کے لیے سازشیں چھوڑ دے اور خون خرابہ کرانے سے دستکش ہو جائے تو ممکن ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں جنم لینے والی سرد مہری ختم ہوجائے لیکن بالادستی کا بھوت اُسے پُرامن بقائے باہمی سے آگے بڑھنے پر اُکستاتا ہے۔

برطانیہ سے ڈھاکہ آنے والے طارق الرحمن بھارت سے رابطے میں ہیں لیکن عوام کے موجودہ سیاسی مزاج سے لگتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو بھارت کی طفیلی ریاست نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ ایک آزاد و خودمختار ملک کا تشخص بنانا چاہتے ہیں۔ اِن حالات میں طارق الرحمٰن کو تمام تر مقبولیت کے باوجود محتاط چلنا ہوگا۔ اگربھارت سے بے جا گرمجوشی دکھائی تو بنگلہ دیش کی عوام شاید ہی زیادہ دیر برداشت کرے۔ ویزہ اور قونصلر خدمات کی بندش سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات بدترین گراوٹ کا شکار ہیں۔ انتخابات سے قبل تعلقات کو بہتر بنانے کی کوئی کوشش عوامی نفرت کو جنم دے سکتی ہے۔

Check Also

Bangladesh Ka Mojuda Siasi Mizaj

By Hameed Ullah Bhatti