Aur Qaumi Airline Bik Gai
اور قومی ائیر لائن بک گئی

قومی ائیر لائن نجکاری کے عمل سے گزر گئی اور عارف حبیب کنسورشیم نے اس کے 75 فیصد شئیرز کو مجموعی طور پر 135 ارب میں خرید لیا۔ اس ڈیل میں قومی ائیر لائن کے بقایا جات حکومت پاکستان کے ذمہ ہیں۔ آپ فرنٹ دس ارب روپے میں ملکیتی حقوق عارف حبیب گروپ کو منتقل ہوں گے اور بقیہ 125 ارب روپے آئندہ پانچ سالوں میں پی آئی اے کی بحالی یا بہتری پر صرف کرنا ہوں گے۔ قومی ائیر لائن کو فروخت کرکے حکومت شادیانے بجاتی نظر آتی ہے۔ وزیراعظم نے قوم کو مبارکباد دی ہے۔ حالانکہ یہ حکومت کے لیے شرم کا مقام ہونا چاہئیے تھا۔ یہ سارے سسٹم کے لیے افسوس کا مقام ہونا چاہئیے تھا۔ اس ڈیل میں پی آئی اے کے بیرون ممالک اثاثے (ہوٹلز/ بلڈنگز) شامل نہیں ہیں۔ پی ائی اے کے تیس جہازوں میں سے اٹھارہ جہاز قابلِ پرواز ہیں باقی گراؤنڈ ہیں جن کو پرواز کے قابل بنانے کے واسطے سپئیر پارٹس درکار ہیں۔
ائیر لائن کے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔ کسی نے اس کو قومی اثاثہ نہیں سمجھا۔ پیپلزپارٹی نے قومی ائیر لائن پر افرادی بوجھ ڈالا۔ اس میں کارکنان کو نوازنے کے لیے ضرورت سے زائد بھرتیاں کیں۔ تحریک انصاف کے دور میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں والا شوشا چھوڑا گیا۔ پی آئی اے کے روٹس بند ہوئے۔ فضائی پابندیاں عائد ہوئیں۔ ملازمین کی تنخواہیں بند ہوئیں۔ عالمی سطح پر بدنامی ہوئی۔ پائلٹس تنظیموں اور لیبر یونین نے اس کے ڈھانچے اور آپریشنز کو برباد کیا اور نون لیگ نے اسے اونے پونے بیچ کر جشن منانا شروع کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے سب ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے ہیں اپنے گریبان میں کسی نے جھانکا تک نہیں ہے۔ سب اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ جیسا کہ قومی مزاج ہے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ سب ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ وہ ائیرلائن جس نے امارات جیسی ائیرلائن کو آپریشنل سپورٹ دے کر کھڑا کیا۔ جو اسی کی دہائی تک دنیا کی فضاؤں میں چھائی رہی۔ جس کے بارے اندازے لگائے جاتے تھے کہ کراچی ایشیا کا فضائی حب بنے گا۔ وہ رفتہ رفتہ برباد ہوتی چلی گئی اور دنیا کا ٹرانزٹ حب دبئی، ابو ظہبی اور دوحہ بن گیا۔ کوئی تو وجہ رہی ہوگی۔ کیا فرشتوں نے اسے نقصان پہنچایا ہے؟ کیا حکومتوں نے اسے نفع پہنچایا ہے؟ ہے کوئی ذمہ دار؟ یہ اجتماعی گراوٹ ہے بھیا۔ سب نے اس گراوٹ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔
ریلوے، اسٹیل ملز اور پی آئی اے وغیرہ ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت کی ملازمتی چراگاہ تھے۔ جسے بھی احسان مند کرنا مقصود ہوتا اسے ان تینوں میں سے کسی ایک ادارے کا تقرر نامہ جاری ہوجاتا، بھلے وہ متعلقہ کام کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ تینوں اداروں پر اتنا بوجھ ڈالا گیا کہ بالاخر وہ دیوالیہ ہو کر ایسے سفید ہاتھی بن گئے جنہیں چلانا تو درکنار صرف کھڑا رکھنے کے لیے اس وقت اربوں روپے کا چارہ ڈالا جاتا رہا۔ یہ اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے سمیت سرکاری محکمے اور سماج یونہی برباد نہیں ہوا ہے۔ اس بربادی میں کرتے دھرتوں کا جو حصہ تھا وہ تھا اس میں لوگوں کی بے کاری بھی بہت تھی۔
یہاں کیا نجی اور کیا سرکاری، لوگ کام کرنا چاہتے ہیں نہ ہی کوئی اس ملک کو اپنا ملک سمجھتا ہے۔ جس کے جب سینگ سمائیں وہ یہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ یہی پی آئی اے ہے جس کے بیسیوں ملازمین مغربی ممالک میں "غائب" ہو چکے ہیں۔ ہر سرکاری ادارہ تباہ حال کھڑا ہے۔ کس کس کو بیچیں گے؟ جو بچ رہے ہیں کیا ان کی جانب بھی توجہ ہے؟ پولیس، محکمہ تعلیم، ایف بی آر اور واپڈا کی بھی خبر لے لیں۔ ان کو تو بیچا بھی نہیں جا سکتا۔ وقت گزرتا جا رہا ہے اور ہماری آنکھ ہے کہ خواب سے بیدار ہی نہیں ہو رہی۔ ساری قوم اپنے اپنے نجات دھندہ کی راہ تک رہی ہے جو ایک دن آئے گا اور ان کو دکھوں سے نجات دلائے گا۔ حضرت جون ایلیا کا شعر ہے
آپ ایک اور نیند لے لیجئیے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا

