Wednesday, 31 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Balatar

Balatar

بالاتر

یہ انسانی جبلت، فطرت کہہ لیں کہ انسان خود کو دوسروں سے الک اور نمایاں نظر آنے کے خبط میں مبتلا ہے اور اسی زعم میں وہ قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ لیکن حکومت اپنی قانونی رٹ قائم کرتی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو توازن قائم رہے اس کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے۔ بیشک قانون کتنا ہی اچھا کیوں نہ بنا لیا جائے پھر بھی کہیں نہ کہیں اس میں بہتری یا نظر ثانی کی گنجائش رہتی ہے۔ موجودہ گورنمنٹ نے پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد شروع کروایا ہے اور کچھ نئی اصطلاحات اور ادارے قائم کئے ہیں۔ بلاشبہ یہ سب احسن اقدام ہیں۔ جیسا کہ ٹریفک قوانین کا اطلاق۔ جرمانے کی شرح میں اضافہ۔ پیرا فورس کا قیام وغیرہ۔

جیسا کہ حال ہی میں سکھ کیمونٹی کو ہیلمٹ سے مبراء کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک جائز اور اچھا فیصلہ ہے۔ لیکن ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں تمام بچے یکساں ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے علماء اکرام یا ہمارے دیہاتی بزرگ جو پگڑی کا استعمال کرتے ہیں ان کو بھی ہیلمٹ سے استثناء دی جائے یہ ایک جائز مطالبہ ہے حکومت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح جرمانے کی شرح ہر چھوٹے بڑے شہر میں یکساں ہے۔ میری نظر میں اس کو بھی تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اچھا عمل ہوگا۔ بڑے شہروں میں جہاں ٹریفک کے مسائل کا سامنا ہے ان کو اے کٹیگری میں رکھیں اور پورا جرمانہ وصول کیا جائے۔ چھوٹے شہروں میں ٹریفک کے مسائل اس طرح نہیں ہوتے تو وہاں پر جرمانے کی شرح کم کر دی جائے۔ اسی طرح دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں موجودہ آرڈیننس سے پہلے جو جرمانے کی شرح تھی۔ وہی رکھی جائے۔ وہاں غربت زیادہ ہے۔ کوئی غریب اپنے قریبی قصبے میں دوائی یا کوئی معمولی کام کے سلسلے میں آتا ہے تو وہ یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہے۔ ان کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کچھ قانون میں رعایت ہونی چاہئے۔

ہم نے قانون کی سختی کرکے ہیلمٹ تو پہنا دئیے ہیں۔ لیکن اپنی نسل میں یہ بات ان کے دماغ میں جا گزیں نہیں کر پائے کہ سر پر ہیلمٹ جرمانے سے بچنے کے لئے نہیں پہننا بلکہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ٹریفک قوانین عام آدمی پر لاگو ہیں۔ کیا اشرافیہ کو پروٹوکول دیا جائے گا؟ کیا ان کے لئے عام لوگوں کے لئے اشارے بند کئے جائیں گے؟ اگر اس پر قانون خاموش رہے گا تو عوام میں بے چینی اور غصہ کا عنصر بڑھے گا جس سے حکومت اور عوام میں خلیج بڑھے گی۔

پیرا فورس کا قیام بھی اچھا ہے۔ پر نقصان تبھی جب منظور نظر لوگوں سے صرف نظر رکھ کر صرف غریب چھابڑی والوں کی شامت بنے رہیں۔ ایسا بلکل بھی نہیں ہونا چاہئے۔ تاجر جو حکومت کو کچھ دیتے ہی ہیں۔ کم یا زیادہ یہ الگ بات ہے پر تاجر حکومت سے ایک استدعا کرتے ہیں کہ ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ پیرا فورس کا انداز انتہائی تحکمانہ فرعونی نظر آتا ہے اور یہ پہلی بار ایسا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہیں یا کریں دوسرے بندے کی شنوائی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرے بندے کو بھی حق دیا جائے اگر اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہوئی ہو۔

اس پیرا قوانین میں بھی میری نظر میں کچھ گنجائش اور بہتری کی ضرورت ہے۔ ہمیں مین سڑکوں اور کمرشل مارکیٹ اور کمرشل گلیوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ کمرشل مارکیٹ میں لوڈنگ ان لوڈنگ کے بغیر کام نہیں ہو سکتا ہے۔ وہاں پر سختی خوف و ہراس تجارتی سر گرمی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ کچھ بزنس ایسے ہیں جہاں پر گاہک کے سامان کو اس کی گاڑی تک پہچانے کے لئے ایک ہاتھ والی ریڑھی کا استعمال نا گزیر ہے اس کے بغیر آپ اپنا بزنس نہیں چلا سکتے پیرا والے وہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ دوسری طرف لاہور کے دل میں مال روڈ پر ھائی کورٹ کے بالمقابل ریگل چوک کی طرف جائیں تو دوپہر کے بعد فٹ پاتھ پر ایک مخصوص مافیا نے پوری پارکنگ لگائی ہوئی ہے۔ اس پر شاید پیرا کے پر جلتے ہیں۔ عام بندے کے لئے یہ بہت تکلیف دہ امر بن جاتا ہے کہ اس کو جائز کام سے روکا جاتا ہے۔

دوسری طرف قبضہ مافیا بلا جھجک قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ رہا ہے۔ اس فٹ پاتھ پر قبضہ ان کی دس سالہ ریاضت کا نتیجہ ہے۔ کئی حکومتیں آئیں گئیں۔ پر ان پر کسی مائی کے لعل نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ اسی طرح ہال روڈ کے اندر لکشمی مینشن جو کہ بہت سے حوالوں میں تاریخی حیثیت کا حامل ہے اس کے اندر کچھ مشکوک لوگ پارکنگ کا نظام دھڑلے سے چلا رہے ہیں اب علم نہیں کے کس ادارے سے وہ منظور شدہ لوگ ہیں۔ کیا حکومتی خزانے میں اس پارکنگ سے حاصل شدہ انکم جا رہی ہے یا نہیں پیرا یہاں پر بھی نظر نہیں آرہی۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں ہوں گی سر دست دیگ میں سے دو دانے چکھائے ہیں۔

حکومت کا کام ہے اپنی رٹ قائم کرنا پر یہ صرف عام آدمی غریب سادہ لوح یا تاجر کو ڈرا کر نہیں ہونی چاہئے۔ منظور نظر لوگوں کو استثناء دے کے نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ ایسے لوگوں پر شکنجہ زیادہ سخت ہونا چاہئے جو خود کو اس حکومت یا اس ملک کے قوانین سے بالا تر سمجھتے ہیں۔

قوانین کا اطلاق معاشرے کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے علاقے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جانے چاہئے۔ ریاست کو ایک ماں کا رول ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کے لئے آسانی پیدا کرنی چاہئے نہ کہ ان کے لئے عذاب بن کر نازل ہو۔

Check Also

Kya Maghrabi Mumalik Ke Siasi Nizam Ne Waqai Jamhuriat Hasil Karli Hai?

By Asif Masood