Moscow Se Makka (11)
ماسکو سے مکہ (11)

لو جی بالآخر سفر شروع ہوگیا۔ تلبیہ پڑھا جانے لگا۔ لبیک، اللہمّ لبیک، لاشریک لک لبیک۔ ان الحمد والنعمت لک ول ملک، لاشریک لک۔ تلبیہ کا ورد کرنے والے چار جوان لوگ تھے جن میں سلیم تاجک کی آواز سب سے نمایاں تھی۔ ان کے پیچھے پیچھے باقی لوگ تلبیہ دھرا رہے تھے، البتہ خواتین شاید دل میں پڑھ رہی تھیں۔ سلیم کے ساتھ میری شناسائی مدینہ میں مقامات مقدسہ دیکھنے کے دوران ہوئی تھی۔ بس میں وہ میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ بڑا ہنس مکھ آدمی تھا۔ عمر یہی کوئی بتیس چونتیس برس۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ معمار ہے، پھر بڑے فخر سے اضافہ کیا تھا کہ ماسکو میں میرے تیس آدمی کام کرتے ہیں۔
آدمی دل کھول کر خرچ کرنے والا تھا۔ جیب سے تمام کرنسی نوٹ یک لخت نکالتا تھا چاہے خرچ بیس ریال ہی کیوں نہ کرنے ہوں۔ میں نے اس کی کلاس لے لی تھی لیکن بالواسطہ، یہ مثال دے کر کہ جو شخص لوگوں کو کام دلواتا ہے۔ کام دینے والے سے کچھ اور وصول کرتا ہے اور کام کرنے والوں کو ان کے علم میں لائے بغیر ان کے لیے حاصل کردہ حق محنت سے کم ادا کرتا ہے تو وہ استحصال کا مرتکب ہوتا ہے اور ایسی آمدنی کے حلال ہونے میں شک ہے۔ وہ طنز سمجھ گیا تھا اور کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا تھا کیوں کہ وہ ایسا ہی کرتا تھا اور اسی کمائی سے حج کی سعادت حاصل کرنے جا رہا تھا۔
میرا خیال تھا کہ سڑکوں پہ منٰی جانے والی بسوں کی قطاریں ہوں گی اور منٰی تک پہنچنے کا آٹھ دس کلومیٹر کا سفر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے ہوگا لیکن ہم تو اس خیمہ بستی میں آدھے گھنٹے میں ہی پہنچ گئے تھے۔ بہت سے لوگ سامان اٹھائے ہوئے پیدل چل کر بھی منٰی پہنچ رہے تھے۔ مگر ہماری بس تھی کہ چلتی ہی جا رہی تھی۔ کبھی کچھ دیر کے لیے رک جاتی تھی۔ کبھی مڑ پڑتی تھی۔ مولانا رشیت کسی سے فون پہ گفتگو کیے جا رہے تھے۔ بس کا ڈرائیور جو عرب تھا اعصابانی ہوئے جا رہا تھا۔
لوگ تلبیہ بھول چکے تھے اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پتہ چلا کہ ہمارے ڈرائیور کو وہ جگہ نہیں مل پا رہی جو ہمارے گروپ نمبر "اڑتالیس" کے لیے مخصوص ہے۔ مولانا کی آواز میں جھنجھلاہٹ بڑھتی چلی گئی تھی۔ ہماری شکایتوں پہ ہمیں حج کی وجہ سے صبر کی تلقین کرنے والے، جس پر ایک دفعہ میں نے بھنّا کر کہا تھا کہ آپ کمائی کیے جائیں اور میں صبر کروں، میں نہیں کروں گا، اب خود بے صبر ہو رہے تھے اور فون پہ چیختے ہوئے بالآخر کسی کو بولا تھا کہ ہم واپس ہوٹل پہنچ رہے ہیں۔
ہم کوئی تین ساڑھے تین بجے صبح اپنے ہوٹل لوٹ آئے تھے لیکن ہمیں بس سے اترنے نہیں دیا گیا تھا بلکہ فوراََ ہی کوئی گائیڈ ہمراہ کر دیا گیا تھا اور ہم آدھے گھنٹے میں منزل مقصود پر پہنچ گئے تھے۔ گدے چادریں لیتے، خیموں میں جگہ سنبھالتے، بستر بچھاتے صبح کے پانچ بج گئے تھے یعنی نماز فجر کا وقت ہوگیا تھا۔ ساتھ والے خیمے میں جو سڑک کے اس بار جنگلے کے اندر ہماری قطار کی ہماری جانب والا پہلا خیمہ تھا، اذان دی جانے لگی تھی۔
شکر ہے کہ ہم ابھی باوضو تھے۔ ہم نے رشید صاحب کی امامت میں نماز فجر پڑھی تھی اور پھر سونے کے لیے لیٹ گئے تھے۔ خیموں میں ایر کولرز کے پائپ ان کی چھتوں کے نزدیک دوردور تک پھیلے ہوئے تھے جن میں لگی جالیوں سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ شور بھی تھا اور ٹیوب لائٹیں بھی کسی نے نہیں بجھائی تھیں چونکہ ابھی معلوم ہی نہیں تھا کہ کہاں سے انہیں آف کیا جائے۔ ایمیریٹس کے طیارے سے حاصل کی ہوئی میری آنکھیں بند کرنے والی پٹی کام آئی تھی اور میں سبھی کے ساتھ خواب کی وادی میں اتر گیا تھا۔
دس گیارہ بجے آنکھ کھلی تھی۔ دھوپ تپنے لگی تھی لیکن خیموں کا ماحول مناسب تھا۔ باہر نکل کے دیکھا تھا تو خیموں کی یہ قطار دورتک چلی گئی تھی ہمارے خیمے سے آگے چھ مزید خیمے چھوڑ کر ٹوائلٹ کم باتھ رومز تھے۔ یہ دونوں جانب تھے۔ دس پندرہ ادھر ادھر کے یہ باتھ روم جہاں سے شروع ہوتے تھے وہاں دیوارپرچھ ٹونٹیاں لگی ہوئی تھیں، جن سے ہمیں قطاروں میں لگ کر وضو کرنا تھا۔ جہاں مردوں کے باتھ رومز ختم ہوتے تھے وہاں سے خواتین کے باتھ رومز شروع ہوتے تھے جن کے گرد دیوار تھی۔
ان باتھ رومز کے بعد پھر سات آٹھ خیمے تھے اور پھر اسی طرح سے ٹوائلٹس کا ایک اور سلسلہ تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خیموں کی چار سے چھ قطاروں کے لیے یہ مشترکہ باتھ رومز تھے۔ بیس پچیس لاکھ لوگوں کے لیے یہ انتظام کرنا بھی کوئی اتنا آسان نہیں تھا۔ ہر خیمے کے باہر پانی کا کولر رکھا ہوا تھا، جس میں پائپ سے پانی بھرا جاتا تھا اور پیکٹوں میں بھری برف ڈالی جاتی تھی۔ ہمارے خیمے میں کوئی بائیس افراد تھے اور ساتھ والے پہلے خیمے میں چالیس کے قریب۔
حالت احرام کے دوران کوئی خوشبو استعمال نہیں کی جا سکتی۔ اس کی وجہ بھی یہی رہی ہوگی کہ کوئی خوشبو لگا کر خود کو دوسروں سے ممتاز نہ کرے۔ جب کولر نہیں ہوتے تھے اور پانی کی بھی قلت ہوتی تھی تو ظاہر ہے اژدہام رجال و نساء پسینے کی بو میں بسا ہوتا ہوگا کیونکہ احرام نہ تو مسلسل تبدیل کیے جا سکتے تھے اور نہ ہی دھوئے جا سکتے تھے۔ اب یہ دونوں کام کیے جانا ممکن بھی ہے اور آسان بھی۔ پھر بھی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کوئی صابن استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ کم و بیش سبھی صابن کسی نہ کسی خوشبو کے حامل ہوتے ہیں۔
میں نے مدینہ سے ہی کوشش کی تھی کہ کوئی ایسا صابن مل جائے جو خوشبودار نہ ہو لیکن نہ مل سکا تھا۔ مولوی رشیت سے بحث بھی ہوئی تھی کہ کیا طہارت کے بعد بھی ہاتھ صابن سے نہ دھوئے جائیں؟ کتنی خلاف حفظان صحت حرکت ہے۔ مولوی تو مولوی ہوتا ہے۔ بولے تھے نہ تم ایسا کرنے والے پہلے شخص ہو اور نہ ہی آخری۔ حج کے موقع پر لوگ ایسا کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تاہم میں نے مکّہ کی ایک صیدلیہ یعنی ادویہ کی دکان سے زیتون کے صابن کی ایک چھوٹی سی ٹکیہ پاکستان کے دو سو روپوں میں خرید ہی لی تھی، جس پر باقاعدہ احرام باندھے ہوئے مرد کی تصویر تھی۔ مولوی صاحب نے جب ہمیں جگا کر منٰی کے لیے تیار ہونے کی تلقین کی تھی تو کہا تھا، کچھ بھی ساتھ لے کر نہیں جانا ماسوائے غذا اور پانی کے۔ میں جلد بازی میں اتنی مشکل سے تلاش کیا ہوا صابن بھول آیا تھا۔ اللہ نے کہا ہوگا تو کر لے حفظان صحت کے اصولوں پہ عمل۔ میرے لیے منٰی میں ٹوائلٹ ایک عذاب بن گیا تھا۔
اکڑوں بیٹھنے والے کموڈز تھے۔ لوٹا ووٹا کوئی نہیں تھا۔ ٹونٹی پر دو فٹ لمبی ٹیوب چڑھی تھی، جو بعض اوقات کموڈ کے اندر اس کی اطراف کو چھو رہی ہوتی تھی۔ مستزاد یہ کہ اس کموڈ کے اوپر ہی سات فٹ کی بلندی پہ شاور تھا۔ ملحقہ باتھ/ٹوائلٹس کے نیچے کے حصے میں دوانچ اونچی ریخیں تھیں۔ ساتھ والے باتھ میں اگر کوئی نہا رہا ہوتا تو دوسرے میں اکڑوں بیٹھے شخص کے بدن کے اطراف اور تاحتٰی اوپر کو اٹھائے ہوئے احرام پر بھی پڑنے والے چھینٹوں سے بچا جانا قطعی ممکن نہیں تھا۔ ظاہر ہے ان چھینٹوں میں سات فٹ کی بلندی سے کموڈ میں گرنے والے پانی کے بھی چھینٹے شامل ہوتے تھے۔ کموڈ کے اوپر کھڑے ہو کر نہانا ویسے ہی کراہت انگیز تھا۔
ایک روز تو میں نہیں نہایا تھا لیکن گرمی اس قدر تھی کہ بالآخر یہ کڑوا گھونٹ بھرنا ہی پڑا تھا۔ کوشش کرتا تھا کہ ایسے باتھ میں جگہ ملے جہاں سے ملحقہ باتھ میں کوئی نہ ہو لیکن یہ احتیاط بارہا کارگر نہ ہوئی تھی۔ بس اللہ پہ ہی تکیہ کیا تھا کہ جس طرح کے ناصاف بلکہ پلید احراموں میں ہم عبادات بشمول نماز ادا کر رہے تھے، اسے اللہ قبول کرے۔
دوسرا تکلیف دہ حصہ وضو کرنا ہوتا تھا جسے روس سے آئے ہوئے میرے ساتھی، طہارت، کہتے تھے۔ آپ لائن میں لگے ہوئے ہیں اور آپ کو لوگوں کے ناک صاف کرنے، کنگھارنے اور بلغم تھوکنے کی اوازیں آ رہی ہیں۔ جب آپ ٹونٹی کے نزدیک پہنچتے ہیں تو آپ کو ان ناپسندیدہ آوازوں کے ساتھ اس طرح خارج کی ہوئی آلائیشیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اس کی جو بھی تاویل کی جائے میں قائل نہیں ہو سکوں گا کیونکہ میں نے دنیا کے کئی ملکوں میں بہت سی عبادت گاہیں دیکھی ہیں جہاں اس اکراہ سے بچنے کے طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ اب سعودی حکومت منٰی میں مناسب عمارات تعمیر کر رہی ہے، ممکن ہے آئندہ دس سال بعد صورت حال بدل جائے اور مجھ سے نفیس الطبع لوگوں کئی ذہنوں پہ گرانی نہ ہو۔
نور حبیب شاہ سے رابطہ تو اس کے مدینے پہنچنے کے بعد ماسکو سے ہی ہوگیا تھا کیونکہ اس نے اپنے وہاں کے موبائل فون نمبر سے فون کر دیا تھا۔ اس کے جانے کے چھ روز بعد جب میں مدینہ پہنچا تو وہ مکّہ جا چکا تھا۔ فون پہ بات ہوتی رہی تھی۔ مکہ پہنچ کر مجھے فرصت نہیں ملی تھی کہ اس سے مل سکتا۔ منٰی میں قیام چونکہ کئی روز کے لیے تھا چنانچہ جونہی اس کا فون آیا تو میں نے اسے کہا تھا کہ ملو۔ اتفاق سے ہم ایک ہی سیکٹر میں تھے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ کہاں مل سکتے ہیں۔
ٹوائلٹ کی دوسری لائن کے شروع میں عورتوں کے لیے ٹوائلٹس کی دیوار پر روسی زبان میں ایک اشتہار "خضمت" کے نام سے لگا ہوا تھا جو ترک زبان میں "خدمت" کے معنی دیتا ہے۔ حبیب اس کے سامنے کی دائیں بازو کی گلی میں ایک ذیلی بائیں جانب جانے والی گلی کے آخری خیمے میں رہ رہا تھا۔ وہ کمپنی، سلوٹس، کی بجائے کمپنی، خضمت، کے ساتھ آیا تھا۔ ہم نماز عصر کے بعد، اشتہار کے سامنے ہی ایک دوسرے سے آ ملے تھے۔ میں نے اسے اپنے خیمے میں چلنے کو کہا تھا۔ ہمارے خیمے میں داخل ہو کر اس نے کہا تھا کہ آپ کا خیمہ پر سکون ہے۔ ہمارے خیمے میں پچاس لوگ ہیں اور مسلسل وعظ ہوتے رہتے ہیں۔ گپ شپ کے بعد طے کیا تھا کہ اس جانب کے آخر میں باہر نکلتے ہیں تاکہ کچھ کھا لیں۔ مجھے سلیم تاجک نے ہی بتایا تھا کہ اس جانب دکانیں ہیں اور کھانے پینے کے علاوہ دیگر سامان بھی دستیاب ہے۔
اپنے خیمے سے اٹھ کر ہم حبیب کے خیمے میں پہنچے تھے۔ اس کا خیمہ واقعی بہت پر رونق تھا۔ کچھ نوجوان، ایک مائک کے سامنے بیٹھے تاتار زبان میں کچھ پڑھ رہے تھے۔ ہم خیمے کے دروازے کے پاس ہی حبیب کے تہہ کرکے دھرے گدّے پر بیٹھ گئے تھے، وہاں طاہر جان سے ملاقات ہوئی تھی جو حبیب کی بیوی کا رشتہ دار تھا۔ پھر ہم تینوں اشتہار والے ٹوائلٹس کی لائن سے گزر کر خیموں کے ایک اور حصے کے آخر میں لوہے کے ایک کھلے دروازے سے دو قدم نیچے اترے تھے اور خیمہ سیکٹر کی دیوار کے ساتھ ساتھ سجی دکانوں کے سامنے پہنچے تھے۔ وہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔
یہاں کھانے کے لیے تین ہی طرح کے پکوان دستیاب تھے لیکن تھے گرم انڈا پراٹھا، جس کے بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ گوندھے ہوئے آٹے کے پیڑے کو دبا کر مسطح کیا جاتا تھا جس پر ایک انڈا توڑا دیا جاتا تھا۔ آٹے کی تہہ کے چاروں کونے کھینچ کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیے جاتے تھے اور آگ پہ پڑے ایک بڑے سے پترے پر جس پہ تیل تیر رہا تھا اس قسم کے کئی چوکور رکھ دیے جاتے تھے۔ ایک جانب سے پک جانے کے بعد اسے الٹا دیا جاتا تھا اور یوں انڈہ پراٹھا تیار ہو جاتا تھا۔ زرد رنگ کے چاولوں میں مرغ کی بوٹیاں، یہ چکن بریانی تھی۔ تیسرا پکوان لوہے کے ایک چوکور برتن میں ایک جانب بوٹیاں اور باقی شوربہ، یہ گوشت تھا۔ میں نے بڑی تگ و دو کے بعد اس شوربہ گوشت کے تین پلاسٹک کے ڈبے اور چھ روٹیاں لی تھیں۔ طاہر اور حبیب دور کھڑے ہوئے تھے، پھر وہیں ایک اونچی جگہ پہ سالن رکھ کر ہم نے یہ بے ذائقہ کھانا زہرمار کیا تھا۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے ڈسپوزیبل کپس میں چائے لی تھی جس سے منہ کا ذائقہ کچھ اچھا ہوا تھا۔
ہمارے خیمے کے ساتھ ہی دوسری جانب کا ویسا ہی لوہے کا دروازہ تھا جہاں سے نکل کر ہم کھانا کھانے پہنچے تھے۔ خیمہ بستی کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ یا تو دیوار سے باہر نکلی اینٹوں کی مینڈھ پر یا پھر زمین پہ کچھ بچھا کر اس پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں یہی سمجھا تھا کہ لوگ خیموں سے نکل کر کھلی ہوا کھانے کی خاطر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سامنے کی پہاڑیوں پہ بھی لوگ اکٹھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ کہیں کہیں کوئی سائیبان کی طرح ان کے سروں پہ کوئی کپڑا بھی تنا ہوا دکھائی دیتا تھا اور کہیں لوگ پہاڑی راستوں پہ چلتے، آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ شاید لوگ سیر کے لیے پہاڑیوں پہ جا چڑھے ہیں لیکن حبیب نے بتایا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو "غیر قانونی" طور پر حج کر رہے ہیں۔ سڑک پہ بیٹھے ہوئے لوگ بھی ایسے ہی "غیرقانونی حاجی" تھے۔ حبیب نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے اور زیادہ تر کا تعلق پختون علاقوں سے ہے، جو یہاں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
"غیر قانونی" حج کی اصطلاح کچھ عجیب سی لگی تھی کہ "حج" کا "قانون" سے کیا تعلق ہے۔ سعودی عرب کے قوانین کے مطابق لائیسنس یافتہ کمپنیاں ہی لوگوں کو حج اور عمرہ کی سہولیات فراہم کر سکتی ہیں۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ سعودی عرب کا شہری یا سعودی عرب میں رہنے والا ہر پانچ سال بعد ہی حج کر سکتا ہے، چنانچہ یہ باہر اور پہاڑیوں پر بیٹھے ہوئے وہ لوگ تھے جنہوں نے کسی کمپنی کے توسط سے خیمہ بستی میں کولروں کی ہوا تلے رہنے کی سہولت نہیں لی تھی۔ اپنی کم مائیگی کے عالم میں یہ دراصل اصلی حج کر رہے تھے، بغیر جدید دور کی کسی سہولت کے۔ چودہ سو یا اس سے بھی کہیں زیادہ پہلے کے برسوں میں کیے جانے والے حج کی طرح۔

