Race Me Ghoron Ka Boycott Aur Gadhon Ki Jeet
ریس میں گھوڑوں کا بائیکاٹ اور گدھوں کی جیت

جہالت فکری مغالطے کا دوسرا نام ہے۔ یہ فکری مغالطے ہی ہیں جو قوموں کا رخ زوال کی طرف موڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں گھومتا ایک فکری مغالطہ قولِ زریں کی صورت میں وائرل ہو رہا ہے۔ وہ یہ کہ "جب گھوڑے ریس کا بائیکاٹ کر دیں تو گدھوں کا جیت جانا کوئی کمال نہیں ہوتا"۔
یہ بظاہر تو قولِ زریں ہے، مگر حقیقت میں کالک زدہ قول ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے حماقت پھوٹ رہی ہے۔ مثلاً ریس لگی ہے۔ جس میں سب جانور گدھے، گھوڑے کتے، لگڑبگڑ حصہ لے رہے ہیں۔ ایک دم گھوڑوں کی طرف سے آواز آتی ہے کہ ہم حصہ نہیں لیں گے۔ یہ سنتے یہ سب جانوروں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ریس میں جو مقابلے کی فضا تھی، وہ گھوڑوں کی وجہ سے ختم ہوگئی۔ اب ریس تو ہوگی۔ ریس کے کرتا دھرتا یہ سسٹم چلائیں گے۔ صرف ایک فریق ریس سے باہر ہوا ہے، باقی نہیں۔ اب گدھے جیت جائیں، تو ٹرافی کن کو ملے گی؟ گدھوں کو۔ انعامات سے نوازا جائے گا تو گدھوں کو۔ کیونکہ یہ جیتے ہیں۔
اب اس کالک زدہ قول کی توضیح یہ ہے کہ گدھے یعنی خان صاحب کے مخالف سیاسی جماعتیں نون لیگ اور پیپر پارٹی جیت کر وزیراعظم بن گئے، صدر بن گئے۔ وفاق ان کے پاس۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور آزاد کشمیر کی تمام حکومتیں ان کے پاس آ گئیں۔ یہ کون ہیں؟ گدھے۔ اب گدھے مختلف قسم کی وزارتیں لے کے بیٹھے ہیں۔ پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی سیر ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے سربراہان سے ان کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ یعنی زندگی بھرپور انجوائے کر رہے ہیں اور دوسری طرف گھوڑا ریس کا بائیکاٹ کرکے سیدھا جیل جا پہنچا۔
اب ہم اس نام نہاد قولِ زریں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں ایک تاریخی حوالے سے۔ 1985ء کا سال ہے۔ ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت ہے۔ ڈکٹیٹر ملک میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کرتا ہے۔ یعنی امیدوار سیاسی جماعت کے انتخابی نشان اور باضابطہ پارٹی ٹکٹ کے بغیر حصہ لے گا۔ مقصد یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے نظریات ختم ہو جائیں۔ خصوصا پیپلز پارٹی کو منظم سیاسی میدان سے باہر رکھا جائے اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں لائی جائے، جو فوجی حکومت کے لیے بے ضرر ہو، نقصان دہ نہ ہو۔ اس وقت پیپلز پارٹی شدید دباؤ میں تھی۔ قیادت جلا وطن تھی۔ پارٹی ورکرز کو سزائیں دی جا رہی تھیں۔ قیادت نے اصولی موقف اختیار کیا کہ غیر جماعتی انتخابات آمریت کو جواز دیں گے۔ وہی قولِ زریں کہ گھوڑوں نے اس ریس کا بائیکاٹ کر دیا، جس میں گدھے حصہ لے رہے تھے۔ انھیں رنج تھا کہ ریس میں صرف گھوڑے ہونے چاہییں۔ گدھوں کو کیوں شامل کیا گیا ہے۔
پھر اس ریس کا نتیجہ گدھوں کی جیت اور گھوڑوں کی شکست کی صورت میں یوں نکلا کہ گدھے پارلیمنٹ میں پہنچ گئے اور گھوڑے باہر سڑکوں پہ رہ گئے۔ اب گدھے یعنی ضیا کے حامی اور موقع پرست سیاستدان ایوانوں میں پہنچ گئے۔ محمد خان جنیجو وزیراعظم بن گئے۔ ضیائی نظام کو آئینی اور سیاسی سہارا مل گیا۔ یوں آمریت کی مزاحمت کرنے والا کوئی سیاسی بندہ رہا ہی نہیں۔ گلیاں ہوگیاں سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے۔
یاد رکھیں! بینظیر ساری زندگی اپنے بائیکاٹ کے اس فیصلے پہ پچھتایا کرتی تھیں۔ اپنے قریبی رفقا اور انٹرویوز میں اس فیصلے کو سیاسی غلطی قرار دیا کرتی تھیں۔ کیونکہ اگر پیپلز پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی، تو اسمبلی کے اندر رہ کر ضیائی نظام کو چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ اس حماقت سے سیاسی میدان دوسرے کے حوالے ہوگیا۔ فائدہ ان گدھوں کو ہوا جو بعد میں اسٹیبلشمنٹ کے مستقل اتحادی بن گئے۔ ضیاء الحق مضبوط ہوگیا اور گھوڑا اوندھے منہ جا گرا۔
آمریت کا مقابلہ سڑکوں پہ نہیں ایوانوں میں ہوتا ہے۔ سڑکوں پہ اگر آپ آئیں گے، تو حکومت سے ٹکر لیں گے، جس کی پشت پہ ریاست ہوتی ہے۔ یوں ذلالت اور خواری آپ کے حصے میں آئے گی۔
بینظیر کہا کرتی تھیں کہ سیاسی بائیکاٹ کمزوروں کا ہتھیار ہوتا ہے۔ طاقتور سیاست، شرکت سے ہی بنتی ہے۔ بے نظیر کا انتخابات میں حصہ نہ لینا ایک اصولی، مگر سیاسی طور پے نقصان دہ فیصلہ تھا۔
یاد آیا 2008ء کے انتخابات میں نواز شریف نے بھی بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پھر زرداری صاحب کے سمجھانے پہ انتخابات میں حصہ لیا اور بدلے میں پنجاب اس کے ہاتھ آ گیا۔
سیاست دان لمبی ریس کا گھوڑا ہوتا ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑتا۔ کبھی نہ کبھی اس کی باری آ ہی جاتی ہے۔ اگر بےصبری سے کام لے گا، تو سوائے چیخم دھاڑ کے، شور شرابے اور جیل جانے کے، اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
پس ہر قول، قولِ زریں نہیں ہوتا۔ کچھ اقوال کالک زدہ بھی ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قول یہ ہے کہ مخلص انسان کی کڑواہٹ برداشت کر لیں وگرنہ منافق کی مٹھاس آپ کی زندگی تباہ کر دے گی۔
کڑواہٹ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ہر وقت کی بک بک، اس کی بدتمیزی، اس کی اخلاق سے گری گفتگو۔ کیا اس سے زندگی تباہ نہیں ہوتی! جس بندے دے منہ نال کتا بجا ہووے، وہ نرا عذاب ہوتا ہے۔ یوں منافق کی مٹھاس کی طرح اس مخلص کی کڑواہٹ بھی زندگی برباد کرتی ہے۔
پس قول، زریں ہو تو اسے اہمیت دو، وگرنہ اسے کالک زدہ سمجھ کر نظر انداز کر دو۔

