تھر پارکر خودکشی میں سب سے آگے
تھر پارکرکا شمار پاکستان کے غریب ترین اضلاع میں ہوتا ہے، مگر اب تھر پارکر خودکشی کے واقعات میں پاکستان میں اول درجہ پر تعینات ہوچکا ہے۔ ایک سائنسی طریقہ کارکے مطابق ہونے والی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ تھر پارکر میں خودکشی کرنے والے 60 فیصد افراد نوجوان ہیں۔
تھرپارکر کی ترقی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم تھر فاؤنڈیشن، سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے حکومت سندھ کے محکمہ صحت، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس، ڈاؤ میڈیکل سائنس، سرکاوس جی انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی کے تعاون سے تھرپارکر میں خودکشی کے بڑے رجحان کے بارے میں ایک جامع تحقیق کی ہے۔
اس تحقیق میں معروف ماہرینِ نفسیات نے معاونت کی۔ پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ اس کے نگراں تھے۔ تحقیق کے لیے ریسرچرز نے اسپتالوں کے ریکارڈ کے علاوہ خودکشی کرنے والے افراد کے لواحقین سے تفصیلی انٹرویو کیے، یوں تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ خودکشی کرنے والے بیشتر افراد پہلے سے نفسیاتی امراض میں مبتلا تھے۔ اسی طرح خودکشی کرنے والے 60 فیصد افراد کی عمریں 10سے 20 برسوں کے درمیان تھیں۔
36 فیصد کی عمریں 21 سے 30 سال اور 9 فیصد کی عمریں 31 سے 40سال کے درمیان جب کہ 5فیصد افراد 40 سال اور اس سے بڑی عمر کے تھے۔ اسی طرح خودکشی کرنے والوں میں 45 فیصد عورتیں اور 15فیصد مرد تھے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے ریسرچرز نے خودکشی کرنے والے خاندانوں کے اہل خانہ سے انٹرویو لیے تھے، یوں یہ حقائق ظاہر ہوئے تھے کہ 15فیصد مرد ناخواندہ تھے اور 60 فیصد عورتیں گھریلو تھیں۔ اسی طرح خودکشی کرنے والے 40 فیصد افراد کا تعلق نچلے طبقہ سے تھا۔ ان میں سے کچھ غیر ہنرمند مرد تھے جن کا گزارا روزانہ کی آمدنی پر ہوتا تھا۔
کچھ درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے تاجر تھے۔ ریسرچرز نے انتہائی عرق ریزی سے کام کیا اور اپنی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا کہ 52 فیصد افراد نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے خودکشی کی۔ 73فیصد نے خودکشی کے لیے گلے میں پھندے ڈالے۔ اسی طرح 15فیصد نے پہلے بھی خودکشی کی کوشش کی تھی اور 36 فیصد نے خودکشی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اپریل اور مئی کے مہینوں میں زیادہ افراد نے خودکشی کی۔ اسی طرح 48 فیصد افراد نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اچانک خودکشیاں کیں۔
سندھ مینٹل اتھارٹی کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعہ خودکشی کے حقیقی اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا دعویٰ ہے کہ جنوبی ایشیا میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کی حکومت کو خودکشی کے واقعات پر نظر رکھنے کے لیے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک مؤثر نظام قائم کرنا چاہیے۔ اس علاقہ میں 92فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور 8 فیصد افراد شہروں میں آباد ہیں۔ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق تھرپارکرکی مجموعی آبادی 16لاکھ ہے مگر اس ضلع کا رقبہ 21000کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
بھارت کی ریاست راجستھان تک پھیلے ہوئے تھرپارکرکا بیشتر حصہ ریگستان پر مشتمل ہے۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس ضلع میں 301، 625 گھر ہیں جن میں سے 274164گھر دیہی علاقوں میں اور 26934 گھر شہری علاقوں میں واقع ہیں۔ آبادی کے بیشتر حصہ کا روزگار گلہ بانی اور زراعت ہے مگر پورے ضلع کے کسی اسپتال میں سائیکٹریٹک وارڈ نہیں ہے۔ آبادی کا بیشتر حصہ ہندوؤں کی نچلی ذاتوں دلت وغیرہ پر مشتمل ہے۔
چین کی مدد سے سی پیک کے منصوبے تھرپارکر میں شروع ہوئے ہیں۔ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک میں پیداوار شروع ہوچکی مگر تھر کے کوئلہ سے پیدا ہونے والی بجلی سے تھر کے عوام محروم ہیں۔ یہ بجلی مٹیاری سے نیشنل گرڈ سسٹم کا حصہ بن جاتی ہے۔ حکومت سندھ نے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے تھے، جن میں سے بیشتر پانی صاف کرنے سے قاصر ہیں۔ تھر پارکر میں قحط جیسی صورتحال رہتی ہے۔ قحط کے دوران آبادی کا ایک بڑا حصہ ہجرت کر کے اندرون سندھ آباد ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت، بے روزگاری، کم سنی کی شادی، مذہبی امتیاز اور دائمی ڈپریشن، پسند کی شادی نہ ہونا اور زندگی گزارنے کے لیے سود لینے پر مجبور ہونے والے افراد خودکشی پر مجبور ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والا نفسیاتی امراض کا شکار ہوتا ہے اور بیماری کی بناء پر خودکشی کرتا ہے۔ اس بناء پر اقدام خودکشی کے ملزموں کو سزا دینا زیادتی ہے۔ سینیٹر کریم خواجہ نے 2018 میں اس قانون میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا تھا جو سینیٹ سے منظور ہوا تھا مگر پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کی منظوری دی۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کی میعاد ختم ہوچکی تھی، یوں یہ ترمیم قانون نہ بن سکی۔ سہیل سانگی سینئر صحافی ہیں اور ان کا تھرپارکر سے تعلق ہے۔
سہیل سانگی نے اس رپورٹ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طور پر تھرپارکر میں نفسیاتی مرض کا پوسٹ مارٹم کے نام سے کی گئی تحقیق میں نصف درجہ سے زائد نقص پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ ایک جانبدار تحقیق نظر آتی ہے۔
اول یہ کہ تھرپارکر ضلع کی ایک پوری تحصیل ڈاہلی کو اس رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا، جس کے لیے رپورٹ میں بظاہر کوئی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں انتظامی اور جغرافیائی حوالے سے بھی تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ اسلام کوٹ تحصیل میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات ہوئے جس کا رپورٹ میں ضمناً ذکر کیا گیا ہے۔ اسلام کوٹ وہ علاقہ ہے جو تھرکول کا بلاک ون ہے جہاں کوئلہ نکالنے کے بعد اس پر بجلی گھر بھی چل رہا ہے۔ اسی تحصیل کو حکومت اور کول کمپنی مثالی علاقہ قرار دیتی رہی ہے۔
اس علاقہ کو " شو پیس" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ تھر میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کوئلہ پاور پلانٹ اور کول کمپنی ہے۔ اس علاقہ میں خودکشی کے واقعات کیوں بڑھے؟ اس کے بارے میں یہ رپورٹ خاموش ہے۔ اصل میں جو بھی یہاں پر ترقی ہوئی، وسائل اور مواقع پیدا ہوئے مقامی لوگ اس کا حصہ نہیں بنائے گئے۔ نتیجہ میں محرومیاں بھی بڑھیں۔ لوگوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کردیا گیا اور ان سے مویشیوں کی چراگاہیں سرکاری زمین کے نام بھی چھینی گئیں۔
یوں لوگوں کے زندہ رہنے کے وسائل محدود اور معدود ہوئے۔ تیسری وجہ یہ پیدا ہوئی کہ تھر کی زرعی کاشتکاری، گلہ بانی معیشت میں بغیر تیاری کے جدید ترین معیشت اور سرمایہ داری کو Inject کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود تھر کے لوگوں کے درمیان اورباہر سے آکر تھر کی ترقی پر قبضہ کرنے والوں کے درمیان معاشی نا برابری بڑھی۔
تھرکے معاشرہ میں بڑی معاشی عدم مساوات اب نہیں رہی ہے۔ اس نئی ترقی نے اس معاشی نابرابری کو بڑے پیمانہ پر بڑھاوا دیا۔ اس صورتحال میں معاشی خواہ سماجی بے بسی بڑھی۔ خودکشی دراصل بے بسی کی ایک علامت ہے جس کی وجہ سے تھر میں اور خاص طور پر ترقی کا گڑھ بننے والے علاقہ میں بڑھی ہیں۔