پی ڈی ایم کے تضادات
پی ڈی ایم نے ایک سال بعد کراچی میں بڑا جلسہ کیا۔ اس دفعہ جلسہ پر جمعیت علماء اسلام والے چھائے ہوئے تھے، مگر گزشتہ سال جلسہ کا اہتمام پیپلز پارٹی نے کیا تھا۔ اس جلسے کے بعد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے ہوٹل کے کمرے کے دروازے توڑ کر رات کے آخری پہر گرفتار کیا تھا۔
یہ خبر گرم تھی کہ آئی جی کو زبردستی کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر مجبور کیا گیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی مذمت کی تھی مگر پھر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوگئیں۔ سندھ حکومت کے تین وزراء کی تحقیقاتی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ آئی جی کو مسلح دستوں کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر غلط تھی۔
بہرحال مولانا فضل الرحمن نے جلسہ میں دھواں دار تقریر کی۔ مولانا صاحب نے اسلام آباد میں دھرنا دینے اور عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے لیے تحریک چلانے کا کہا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انقلاب برپا کیا جائے گا۔ میاں نواز شریف نے اس جلسہ میں وڈیو لنک کے ذریعے زوردار تقریرکی۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے دوسرے دن صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے قومی حکومت کی تجویز پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم 2023میں شفاف انتخابات کے انعقاد کی خواہاں ہے۔
اس جلسہ سے پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اشارتاً کہا کہ شہباز شریف جیل جانے والے ہیں، دیگر ہم نوا وزراء نے بھی جن میں شیخ رشید قابلِ ذکر ہیں انتباہ کیا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے مقدمات کے فیصلے ہوں گے اور یہ سب جیلوں میں ہوں گے۔ نیب نے اچانک تین سال بعد میاں نواز شریف کے جیالے رانا ثناء اﷲ کے خلاف 9 کروڑ روپے کے اثاثوں کا الزام لگاکر آمدنی سے زیادہ زندگی گزارنے کے الزام میں ریفرنس احتساب عدالت میں پیش کرنے کی منظوری دیدی۔
گزشتہ ایک سال کے واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو کچھ حقائق یوں سامنے آتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد ایک خلاء پیدا ہوا۔ اب پی ڈی ایم میں دو جماعتیں جن کے پاس عوامی طاقت ہے رہ گئیں۔ مسلم لیگ کی اصل طاقت پنجاب میں ہے اور خیبر پختون خوا میں ہزارہ ڈویژن اس کی طاقت کا محور ہے۔
جمعیت علماء اسلام کی طاقت کے محور خیبر پختون خوا اور بلوچستان ہیں مگر سندھ میں جے یو آئی تیزی سے ابھرتی ہوئی قوت ہے۔ کئی ہزار دینی مدارس کے طالب علم اپنے قائدین کی آواز پر جلسوں میں آتے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ شیر پاؤ کی جماعت کے پی کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ محمود اچکزئی کی خیبر پختون خوا، ملی عوامی پارٹی کا سارا اثر بلوچستان کے پختون آبادی والے علاقوں میں ہے۔ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچ اکثریتی علاقوں میں اثر رکھتی ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں جے یو آئی تنظیمی لحاظ سے زیادہ منظم جماعت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد جلسوں کو منظم کرنے اور حاضرین کی تعداد کے حوالے سے جے یو آئی زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔ گزشتہ ماہ سے خطے میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سب سے پہلے طالبان کی کامیابی کا خیر مقدم کیا ہے۔
طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد ہزاروں پشتون سرحد پار کر کے بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں آرہے ہیں۔ جے یو آئی کی پی ڈی ایم پر بالادستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جے یو آئی سندھ کے امیر مولانا اسد سومرو نے اچانک اعلان کیا کہ خواتین کو اس جلسہ میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
مولانا سومرو نے یہ اعلان جمعیت علماء اسلام کی طے شدہ پالیسی کے تحت کیا۔ جمعیت علماء اسلام کا کافی برس پہلے تاسیسی اجلاس ہوا تھا۔ اس تاسیسی اجلاس میں بھارت کے معروف علماء کے علاوہ دیگر ممالک سے مندوبین شریک ہوئے تھے مگر اتنے اہم اجلاس میں خواتین شریک نہیں تھیں۔
مسلم لیگ ن کی مریم اورنگزیب کے مزاحمتی ٹویٹ کے بعد یہ وضاحت جاری کی گئی کہ خواتین کی جلسہ میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس ماحول میں بہت کم خواتین کراچی کے جلسہ میں شریک تھیں۔ محمود اچکزئی ذاتی طور پر اور ان کی جماعت عمومی طور پر بلوچستان میں طالبان کے اثرات کے خلاف ہے۔
محمود اچکزئی نے طالبان حکومت کے خاتمہ کے لیے پہلے حامد کرزئی اور صدر اشرف غنی کی حکومتوں کی بھرپور حمایت کی تھی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی ہمیشہ سے طالبان کے اقتدار کے خلاف رہی ہیں۔ بلوچستان کی ان دونوں جماعتوں کو ڈیورنڈ لائن سے آنے والے سیکڑوں افراد کی ہجرت پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے۔
ان جماعتوں کے رہنماؤں کا بار بار یہ کہنا ہے کہ اس صورتحال میں آبادی کے تناسب میں فرق پیدا ہوگا۔ نیشنل پارٹی جس کی قیادت ڈاکٹر مالک کر رہے ہیں، ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے مفاہمت کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر نئی جیو پولیٹیکل صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد نیشنل پارٹی کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیئت اﷲ کی پالیسی اور مولانا فضل الرحمن کی پالیسی میں بنیادی فرق یہ نظر آتا ہے کہ ملا ہیئت اﷲ شورائیت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن جمہوریت کے ذریعہ شریعت کے نفاذ کے خواہش مند ہیں۔ ایک طرف تو جیوپولیٹکل صورتحال میں تبدیلیوں کی بناء پر پی ڈی ایم کی جماعتوں میں نئے تضادات پیدا ہوگئے ہیں تو دوسری طرف میاں نواز شریف، مریم نواز اور میاں شہباز شریف کے بیانیہ کے تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز اس حکومت کے خاتمہ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں مگر شہباز شریف قومی حکومت اور شفاف انتخابات تک محدود ہیں، یوں اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور اسلام آباد پر دھرنا دینے کے نعروں پر عوام یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت گزشتہ 5 برسوں سے سخت مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میاں برادران کو قبول کرنے کوتیار نہیں ہے۔ اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ طے کرلیا گیاہے کہ مسلم لیگ ن کسی بھی ضمنی انتخاب میں کامیاب نہیں ہوگی اور اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگلے سال عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ کی قیادت جیلوں میں سزائیں کاٹ رہی ہوگی۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یورپ کی رائے عامہ طالبان کے اقتدار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورتحال میں میاں نواز شریف کو پھر کوشش کرنی چاہیے کہ کم از کم چند اہم نکات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اتحاد میں دوبارہ شمولیت کے لیے تیار کریں اور اس مقصد کے لیے کم سے کم نکات تیارکیے جائیں۔ اسی طرح جمعیت علماء اسلام کا اثر کچھ کم نظر آئے گا، نیز جدوجہد کے لیے واضح لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ حکومت اپنی مرضی کی انتخابی اصلاحات کرنا چاہتی ہے اور میڈیا کی آواز کو دبانے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔
میاں نواز شریف کا سیاسی ارتقاء ایک قدامت پرست رہنما کے طور پر ہوا تھا مگر انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد لبرل پالیسیاں اختیار کیں، یوں وہ یورپ اور امریکا میں پسندیدہ شخصیت کے طور پر جانے جانے لگے، اگر مسلم لیگ(ن)، مولانا فضل الرحمن کی پیروی کرتی ہے تو میاں نواز شریف کا امیج خراب ہوگا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو ان تضادات کی گہرائی کو محسوس کرنا چاہیے اور ایک واضح پالیسی کے تحت اپنا بیانیہ مرتب کرنا چاہیے۔ عوام میں پی ٹی آئی حکومت اور مقتدر حلقوں کے عزائم کو عیاں کرنا چاہیے۔