لڑا دے کسی بلا سے مجھے
قصور پو لیس کے اے ایس آئی اکبر کے خاندان والوں سے تعزیت کے لیے آنے والے پنجاب کے ایک وزیر سردار آصف نقی اور قصورکے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (DPO) عمر کشور سے اکبر کی سات سالہ بیٹی نے یہ سوال کیا کہ " میرے بابا کب آئیں گے" ڈی پی او نے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے کہا " آپ کے بابا شہید ہوئے ہیں، شہید زندہ رہتے ہیں۔" بیٹی نے سوال کیا " تو پھر بابا نظر کیوں نہیں آرہے ہیں " اور پھر اس موقع پر درد محسوس کرنے والے اپنے آنسوؤں سے آنکھوں کو تر ہونے سے نہ روک سکے۔
گوجرانوالہ کے پولیس کے کانسٹیبل عرفان بٹ کی لاش دو دن بعد قریبی کھیتوں سے برآمد ہوئی، عرفان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہوا تھا۔ عدنان بٹ کی چھ سالہ بیٹی بھی آنے جانے والوں سے یہ سوال کررہی ہے اوریہ منظر ان بارہ گھروں میں بار بار پیش آیا جوگزشتہ مہینہ ایک تنظیم کے جلوس کو اسلام آباد جانے سے روکنے کے لیے اپنی ڈیوٹی پر تعینات تھے۔ پندرہ دن پنجاب کے بڑے شہروں لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، وزیر آباد میں زندگی معطل رہی۔ سڑکیں بند رہیں، تعلیمی ادارے بند کردیے گئے اور بازار بھی بند رہے۔
لاہور سمیت ان صنعتی شہروں میں کارخانوں میں بہت کم ملازمین پہنچ پائے، یوں پیداوار متاثر ہوئی۔ بہت سے مریض اسپتال نہیں پہنچ پائے۔ ملک کا دارالحکومت اس سے متاثر ہوا۔ راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والی سڑک کئی دن تک بند رکھی گئی، یوں ایک محدود اندازے کے مطابق اس تمام صورتحال کے نتیجہ میں ایک ارب روپے کے قریب کا نقصان ہوا۔ پہلے ہفتہ وزیر داخلہ شیخ رشید مذاکرات کرتے رہے۔
انھوں نے 24 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ بدھ تک مسئلہ حل ہوجائے گا۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ ورلڈکپ کے ابتدائی راؤنڈ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ دیکھنے کے لیے دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوئے تھے کہ اسلام آباد سے ٹیلی فون آیا اور دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کو میری ضرورت ہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ وہ اس دفعہ اس معاملہ میں پڑنا نہیں چاہتے تھے مگر اب معاہدہ ہوگیا ہے اور دھرنا جاری رہا۔
پولیس اور دھرنے والوں میں جھڑپیں ہوتی رہیں مگر دھرنے کے شرکاء آگے بڑھتے رہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر داخلہ شیخ رشید ٹی وی پر بیان دیتے رہے، مگر حکومت نے پھر مذاکراتی ٹیم بنائی۔ کراچی سے مفتی منیب الرحمن اور سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ کے مولانا بشیر فاروقی مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے۔ مفتی منیب نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات میں حصہ نہیں لیا، اور پھر ایک 10نکاتی معاہدہ پر اتفاق رائے ہوا جس کے نکات افشا نہیں کیے اور حکومت کی طرف سے معاہدہ کرنے والوں میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شامل ہوئے۔
مفتی منیب الرحمن نے ٹی وی چینلز پرکہا کہ فرانس کے سفیرکو ملک سے نکالنے اور فرانسیسی سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبات کا دھرنے کے شرکاء سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر وزیر داخلہ جب تک ٹی وی چینلز کے اسکرین پر نظر آتے رہے وہ یہی کہتے رہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کسی صورت نہیں مانا جاسکتا، اب وہ مفتی منیب صاحب کے اس بیان پر تبصرہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
1973کے آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی نظام نافذ ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کی ایک پالیسی اور ایک بیانیہ ہوتا ہے مگر حکمران پارلیمانی نظام میں ایک نیا تجربہ کررہے ہیں۔ ان کا ہر وزیر ایک نئے بیانیہ کا پرچار کرتا ہے۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ انکشاف کیا کہ جب گزشتہ مہینوں دھرنا ہوا تھا اور اس میں جو معاہدہ ہوا تھا۔
اس معاہدہ سے میں متفق نہیں تھا اور اس معاہدہ کے لیے متحرک وزراء نے وزیر اعظم کو اس معاہدہ کی شقوں سے بے خبر رکھا تھا مگر مذہبی امور کے وزیر پیر نور الحق قادری کہتے ہیں کہ ان کی کیا مجال کہ وہ وزیر اعظم کو معاہدہ کے بارے میں نہ بتاتے اور ازخود فیصلہ کرتے۔ دلچسپ منظرنامہ یہ ہے کہ یہ دونوں وزراء وزیر اعظم کے ساتھ کابینہ کے اجلاسوں میں موجود ہوتے ہیں مگر وزیر اعظم خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اس صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دباؤ اور بندوق کی نوک پر حکومت سے فیصلے کرانا ایک خطرناک عمل ہے۔
بیرسٹر اعتراز احسن نے مزید کہا کہ جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور فیض آباد پر دھرنا ہوا تھا تو اسی وقت قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ قائد حزب اختلاف تھے اور سینیٹ میں چوہدری صاحب خود قائد حزب اختلاف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود انھوں نے اور سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے استدعا کی تھی کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے، حزب اختلاف اس نکتہ پر وزیر اعظم سے یکجہتی کا اظہارکرے گی۔
اعتزاز احسن نے سیاست میں مذہب کے استعمال کو خطرناک قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1922 میں جب ترکی میں کمال اتاترک نے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تو خلافت کا ادارہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوا تو مسلمانوں کے رہنما مولانا محمد علی جوہر نے خلافت بچاؤ کی تحریک شروع کی۔ مہاتما گاندھی اس تحریک میں شامل ہوئے، یوں گاندھی نے پہلی دفعہ مذہب کا کارڈ استعمال کیا، بیرسٹر محمد علی جناح اس وقت کانگریس میں تھے۔ انھوں نے خلافت تحریک کی حمایت نہیں کی۔ جناح نے کہا کہ مذہب کا کارڈ خطرناک ثابت ہوگا۔ جناح صاحب کا خلافت تحریک پر مولانا محمد علی جوہرکے بھائی مولانا شوکت علی سے تلخ مکالمہ ہوا۔
اس مکالمہ کے بعد بیرسٹر جناح نے کانگریس کو خدا حافظ کیا۔ امریکا نے سوویت یونین کے خاتمہ کے لیے جہاد کا ہتھیار استعمال کیا، یوں مجاہدین پیدا ہوئے۔ سوویت یونین کا خاتمہ ہوا۔ افغانستان تباہی کا شکار ہوا، نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد دنیا کا بیانیہ تبدیل ہوا مگر طالع آزما قوتوں نے مذہبی انتہاپسندی کو اپنے پوشیدہ مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔
تحریک انصاف والے خود اس ہتھیار کو استعمال کرتے رہے، جب گزشتہ حکومت میں فیض آباد پر دھرنا ہوا توتحریک انصاف کی قیادت دھرنے کے شرکاء کے مطالبات کی حمایت کرتی رہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے دھرنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے عنوان سے ایک تاریخی فیصلہ دیا۔
اس فیصلہ میں جامع انداز میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے مگر حکومت نے کبھی اس فیصلہ پر عمل درآمد کے بارے میں نہیں سوچا۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آج ریاست کہیں کھوگئی ہے۔ حکومت کنفیوژ اور زیادہ بے بس نظر آرہی ہے۔
سینئیر وفاقی فواد چوہدری نے اس صورتحال کا کچھ یوں تجزیہ کیا ہے کہ انتہا پسند جماعتیں سیاست میں بہتر کردار ادا کرنے کے بجا ئے انتشار پھیلاتی ہیں۔ ٹی ایل پی سے اتحاد عالمی سطح پر تنہائی کا سبب بنے گا، انتہا پسند جماعتوں کی سیاست محدود ہوتی ہے۔ فواد چوہدری نے یہ اشعار ٹویٹ کرکے موجودہ صورتحال پر اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے:
مفاہمت نہ سیکھا، جبر و ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں، لڑا دے کسی بلاسے مجھے