کراچی کے عوام پر معاشی حملہ
کراچی کے عوام کو مالیاتی بحران میں مبتلا کرنے کی انوکھی تجویز سندھ حکومت کو کسی دانا نے سمجھا دی۔ سندھ حکومت نے کراچی کے عوام پر 9ارب کا ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ بلدیہ کراچی 100سے 200 روپے کے الیکٹرک کے ہر میٹر سے وصول کرے گی۔ حکومت سندھ اور کے الیکٹرک کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے تحت بجلی کے بل میں یہ رقم شامل ہوگی۔
کے الیکٹرک یقیناً اس رقم سے سروس چارجز بھی وصول کرے گی۔ حکومت کے پالیسی ساز ذہین اکابرین کا تخمینہ ہے کہ بلدیہ کراچی کے پاس ان بلوں میں سے مزید 9 ارب روپے وصول ہونگے۔ بلدیہ کراچی کے جواں سال ایڈمنسٹریٹر اس فیصلہ کو انقلاب کے تصور سے منسلک کررہے ہیں۔
بلدیہ کراچی اس مختلف قسم کے 13ٹیکس وصول کرتی ہے۔ بلدیہ اس ترکیب کے ذریعہ 2 قسم کے ٹیکس جمع کرنے کی خواہش مند ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کے جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلدیہ ان ٹیکسوں کی مد میں سالانہ 21کروڑ روپے وصول کرتی ہے۔
یہ ٹیکس بلدیہ کراچی اپنے 25 لاکھ 60 ہزار صارفین سے چارج کرے گی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کن صارفین سے 100 روپے اور کن سے 200 روپے وصول کیے جائیں گے۔
بلدیہ کراچی کی زبوں حالی کی اپنی ایک داستان ہے۔ بلدیہ کراچی کا قیام پاکستان کے قیام سے پہلے ہوا۔ کراچی کا نظام چلانے کے لیے کبھی منتخب قیادت کبھی سٹی ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوتے رہے۔ منتخب قیادت اور بیوروکریسی کی زیر نگرانی بلدیہ کراچی کی کارکردگی 50ء اور 60ء کی دہائی میں خاصی بہتر تھی۔ اس زمانہ کے افراد کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ کراچی کی صفائی کا معیار دنیا کے بہت سے شہروں سے بہتر تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے۔ انھوں نے بلدیہ کراچی کو فعال کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کیے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کے بلدیاتی اداروں کے قانون کے تحت میئر آئے۔ اس زمانہ میں کراچی کے حصہ میں موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ کو نہیں ملتا تھا۔
1985 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے غیر جماعتی بنیادوں پر فوری اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم اور غوث علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے۔ صوبہ کی منتخب قیادت کو بلدیہ کراچی کی سرکشی پسند نہیں آئی۔ عبدالستار افغانی نے موٹر وہیکل ٹیکس کے لیے تحریک چلائی۔ صوبائی حکومت نے میئر کو رخصت کیا۔
ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار میئر منتخب ہوئے۔ ان کے عزائم تو بلند تھے مگر ان کے دور میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومتیں بنائیں۔ 1973میں واضح طور پر بلدیاتی اداروں کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت اور بعد میں قائم ہونے والی حکومتوں میں ایک فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں کراچی میں تاریخی ترقیاتی کام ہوئے مگر باقی ادوار میں کراچی ان کے ایجنڈا پر شامل نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں ڈاکٹر فاروق ستار اپنی میعاد پوری کر کے رخصت ہوئے اور پھر بلدیاتی انتخابات بھی نہیں ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں سوشلسٹ نظریات کے حامل فہیم الزماں کو ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا۔ پروفیسر محمد نعمان ان کے مشیر ہوئے۔ فہیم الزماں نے شہر کراچی کی ترقی کے لیے کئی منصوبے بنائے۔ کچھ پر عملدرآمد ہوا مگر پھر اچانک رخصت کر دیے گئے۔
جنرل مشرف کے دور میں نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ناظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں کراچی کے شہریوں کو یہ احساس ہوا کہ سرکاری ادارے صفائی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ نعمت اﷲ خان نے ہر شعبہ میں دوررس اقدامات کیے۔
ایم کیو ایم کے مصطفی کمال میئر بنے۔ ان کے دور میں کراچی جدید دور میں داخل ہوا مگر ان کی پالیسیوں کا فائدہ متوسط طبقہ کو ہوا۔ مصطفی کمال کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کے ہزاروں کارکن بلدیہ میں ملازم ہوئے۔ میئر کو وزیر اعظم کے قریب اختیارات حاصل تھے، اس بناء پر گریڈ 1 سے بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین گریڈ میں بھرتیاں ہوئیں۔ مصطفی کمال پرویز مشرف سے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے گرانٹ حاصل نہ کرسکے۔ ان کے دور میں بلدیہ کراچی خسارے کا شکار ہوئی۔
ہزاروں ملازمین کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملیں اور ریٹائر ہونے والے ملازمین پنشن سے محروم ہوگئے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں کراچی کے عوام میں احساسِ محرومی انتہائی درجہ تک بڑھ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس کراچی کے عوام کے احساسِ محرومی کو کب استعمال کرے گی۔