وزیر اعظم کا ریلیف پیکیج یا قوم کو نیا ڈراوا ؟
دو دن قبل ہمارے وزیر اعظم صاحب نے پاکستانی قوم سے پھر خطاب فرمایا ہے۔ جناب عمران خان کا یہ تازہ بہ تازہ خطاب ایسے ماحول میں نشر ہُوا ہے جب پورے ملک میں غیر یقینی، افرا تفری اور سیاسی ابتری عروج پر ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت ایک کالعدم مذہبی جماعت کے احتجاج کے سامنے بے بسی اور بے کسی کی عملی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ یہ احتجاج کئی بے گناہ جانوں کو نگل گیا ہے۔
جناب عمران خان اور اُن کی ساری حکومتی مشینری سخت دباؤ اور بیچارگی کا شکار رہی۔ ابھی خان صاحب کچھ خاص تقرریوں اور تبادلوں کے دباؤ سے نکلے ہی تھے کہ کالعدم مذہبی جماعت کے نئے دباؤ میں آ گئے۔ حکومت کا پہیہ جام تھا اور عجب خوف و خدشات کے سائے چہار جانب چھارہے تھے۔ عوام کی مایوسی دیدنی تھی۔ خدا خدا کرکے اب ایک پُر اسرار معاہدے کے تحت خوف و دہشت اور تصادم کی فضا تھم چکی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اس دوران پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان کے اکثریتی عوام کی توقعات کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
جناب عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کا گراف یقیناگرا ہے۔ اس گراف کو مزید نیچے گرانے کے لیے اپوزیشن (پی ڈی ایم) نے کمر توڑ مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی سلسلے شروع کررکھے ہیں۔ خان صاحب کے لیے یہ احتجاجات بھی دباؤ اور ذہنی کوفت کا باعث بن رہے ہیں۔ اپنی ساکھ اور گراف کو بلند رکھنے کے لیے جناب عمران خان 3نومبرکو قوم کے سامنے پیش ہُوئے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو اس قدر زچ اور اوکھا کررکھا ہے کہ وزیر اعظم کا خطاب سُننا آسان مہم نہیں ہے۔ پھر بھی عوام نے دل پر صبر کی سِل رکھ کر یہ خطاب سُنا ہے۔ خان صاحب نے 23کروڑ عوام سے خطاب کرتے ہُوئے کچھ مالی ریلیف دینے کا اعلان فرمایا ہے۔ بجائے اس کے کہ اُن کی تقریر سے عوام الناس کو کچھ حوصلہ اور اُمید ملتی، جناب وزیر اعظم نے مگر اپنے خطاب میں عوام کو مزید ڈرایا اور خوف میں مبتلا کیا ہے۔
عوام تو بلند توقعات لے کر اسکرین کے سامنے بیٹھے تھے لیکن تقریر ختم ہُوئی تو اُن کے حوصلے مزید ٹوٹ پھوٹ چکے تھے۔ اُمنگیں دَم توڑ چکی تھیں۔ ابھی صرف تین دن پہلے ہی عمران خان کے وزیر خزانہ، شوکت ترین، نے اپنے انٹرویو میں یہ کہہ کر پوری قوم کو خوف اور دہشت میں مبتلا کر دیا تھا: "کمر کس لیں، مزید مہنگائی ہونے والی ہے۔"
تین نومبر کے تازہ خطاب سے پوری قوم کے حوصلے مزید پست ہو گئے جب عوام نے اپنے وزیر اعظم کی بھی یہ ڈرا دینے والی باتیں سُنی ہیں: " سردیاں آنے والی ہیں اور گیس کا مسئلہ بھی ہوگا (مطلب یہ کہ مہنگی گیس کے نرخوں میں مزید کمر شکن اضافہ ہونے والا ہے) اور پٹرول مہنگا کرنا پڑے گا۔" لیجیے، یہ تھا ریلیف کا اعلان!
کیا یہی ڈراوا سنانے کے لیے وزیر اعظم نے قوم سے طویل خطاب فرمایا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ یہ خطاب سُن کر عوام کے ہاتھ پاؤں مارے خوف کے سُنّ ہو کر رہ گئے ہیں۔ یا خدایا، پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی کا مزید عذاب ہم کہاں تک برداشت کریں گے؟ ہر کسی کے لبوں پر بس یہی ایک سوال ہے۔ خان صاحب نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہُوئے "کمال فیاضی" سے اعلان فرمایا ہے کہ "عوام کے لیے120ارب روپے کی سبسڈی دی جانے والی ہے۔"
وزیر اعظم کے بقول، یہ سبسڈی دال، آٹا، چینی اور گھی ایسی خوردنی اشیا پر 30فیصد سستے نرخوں پر دی جائے گی اور پاکستان کے تقریباً 2کروڑ خاندان اس سہولت سے مستفید ہو سکیں گے۔
اگر ایک خاندان میں پانچ افراد ہوں تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ تقریباً10کروڑ پاکستانی شہری 120ارب روپے کی مبینہ سبسڈی سے استفادہ کر سکیں گے۔ درست اور وزیر اعظم صاحب کا شکریہ۔ سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان کے باقی13کروڑ عوام نے کیا گناہ کیا ہے کہ انھیں اس سبسڈی کی سہولت سے محروم رکھا جائے گا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جو 30فیصد سبسڈی کے مستحق ہوں گے، اُن کی جانچ پڑتال کے لیے کیا سرکاری پیمانہ مقرر کیا گیا ہے؟
وزیر اعظم جناب عمران خان کے اعلان کے مطابق: سبسڈی کی یہ سہولت اگلے 6ماہ کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھ ماہ کے بعد کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قدر خوشحالی کے دریا بہنا شروع ہو جائیں گے کہ کسی کو سرکار کی طرف سے فراہم کردہ مالی اعانت کی ضرورت ہی نہیں رہے گی؟ جناب عمران خان کے چند وزیروں، مشیروں نے شکوہ کیا ہے کہ حکومت کے مخالفین اس مالی اعانت کی فراہمی پر بھی بے جا تنقید کررہے ہیں لیکن حقائق پر نظر رکھنے والوں نے کیلکولیٹرز کی مدد سے قوم کو ساتھ ہی یہ بھی بتانا شروع کر دیا ہے کہ مذکورہ 120ارب روپے کی اعلان کردہ سبسڈی سے مستحقین کو ماہانہ کتنے روپوں کا مالی فائدہ یا امداد ملے گی؟ اس ضمن میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اگلے چھ مہینوں کے دوران 120ارب روپے کی بنیاد پر 10کروڑ عوام میں ہر مستحق شہری کو زیادہ سے زیادہ چند سو روپے کی ماہانہ امداد مل سکے گی۔ اتنے میں تو ڈھنگ کی ایک چاکلیٹ بھی نہیں ملتی۔ تو پھر حکومت کس بات پر یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ 120ارب روپے کی مبینہ امداد کی فراہمی پر عوام دل و جان سے خان صاحب پر فدا ہو جائیں گے؟
جس وقت جناب عمران خان ٹی وی پر اپنے خطاب میں عوام کو120ارب روپے کا لالی پاپ دینے کی کوشش کررہے تھے، عین اُس وقت یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ ملک کے کئی حصوں میں چینی کی قیمت 130روپے فی کلو تک چلی گئی ہے ؛ چنانچہ لوگوں نے طنز سے کہا: خان صاحب جب بھی عوام کو ریلیف دینے کی بات کرتے ہیں، ملک میں نئی مہنگائی کا نیا طوفان اُمنڈ آتا ہے۔ اس کی کئی عملی مثالیں ہمارے سامنے آ چکی ہیں۔
کرلاتی اور بے بس خلقِ خدا کا بجا طور پر کہنا ہے کہ اگر آیندہ چند دنوں میں (وزیر اعظم کے بیان کے مطابق) پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہی کرنا ہے تو حکومت کس برتے پر عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کررہی ہے؟ 120ارب روپے کی نام نہاد سبسڈی کا مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ ایک ہاتھ سے ایک روپے کی سہولت دی جائے اور دوسرے ہاتھ سے آپ سے زبردستی تین روپے چھین لیے جائیں؟
سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ 120ارب روپے آئیں گے کہاں سے؟ کیا پاکستانیوں پر مزید ٹیکس عائد کیے جانے والے ہیں؟ وزیر اعظم صاحب نے ریلیف پیکیج کے پسِ پردہ دراصل پوری قوم کو مہنگائی کے نئے طوفان سے خبردار کیا ہے۔ گویا آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ساری ظالمانہ شرائط تسلیم کی جارہی ہیں۔
اپوزیشن نے درست کہا ہے کہ " خانصاحب نے بھارت اور بنگلہ دیش میں پٹرول کی قیمتوں کا پاکستان سے تقابل کر کے دراصل عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔" اس "ریلیفی خطاب" سے قوم خوش نہیں ہُوئی۔ حیران کن بات یہ بھی رہی کہ وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں کالعدم مذہبی جماعت سے ہونے والے تازہ سرکاری معاہدے بارے ایک لفظ بھی نہ کہا۔