سیاست و ادب کا عجائب خانہ
مجھے تو لاہور کے ایک منفرد اور انوکھے ادبی عجائب گھر کا ذکر کرنا تھا۔ پچھلے چند ایام کے دوران مگر لاہور میں ایسی متنوع سرگرمیاں دیکھنے کو ملی ہیں کہ سب کچھ بھول گیا۔ ان سرگرمیوں نے سارے لاہور کو عجائب گھر میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں زندگی کی تازہ ہمہ ہمی نے لاہور کی مشہور و معروف زندہ دلی کو پھر سے اُجاگر کیا ہے۔
اِس ہفتے لاہور میں وطنِ عزیز کے مشہور شاعر جناب فیض احمد فیض کی37 ویں برسی بھی منائی گئی۔ اس برسی میں بھی سابقہ محبت اور جوش و خروش پایا گیا۔ فیض صاحب مرحوم نے جن سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا خواب دیکھا تھا، اُن تبدیلیوں اور انقلابات کے لیے موسم پک چکا ہے۔ پورے ملک میں اس قدر بے چینی اور بے قراری کی کیفیات غالب ہیں کہ اب تاج و تخت کے اچھالے جانے کے لیے جذبات کروٹیں اور انگڑائیاں لے رہے ہیں۔
عوام مگر حیراں اور پریشاں ہیں کہ اپوزیشن کے جن نام نہاد لیڈروں نے "انقلاب" کے لیے اُن کی قیادت کرنی تھی، اُن کے اپنے جذبات و احساسات پر مصلحتوں کی بھاری اور بوجھل اوس برس رہی ہے۔ ہمارے یہ "قائدین" عوام کے قلوب میں مچلتے اور تڑپتے متوقع "انقلاب" کی جانب قدم اُٹھانے سے پہلے کسی اشارے کے منتظر ہیں۔ ایسے میں کونسی تبدیلی؟ ہم شاید ایسی بد قسمت قوم بن چکے ہیں جس کا آج کوئی ہیرو اور متفقہ لیڈر نہیں ہے۔
لاہور نے دبیزا سموگ کی مہلک اور کثیف چادر اوڑھ رکھی ہے۔ جو شہر کبھی جنت نظیر باغات کا گہوارہ کہلاتا تھا، آج دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پانچویں خطرناک ترین درجے پر کھڑا ہے۔ لاہور کے ڈیڑھ کروڑ باسیوں کی زندگیاں خطرے کی زَد میں ہیں۔ شہر کی فضاؤں میں سانس لی جائے تو پھیپھڑوں میں آکسیجن کے بجائے دھواں اور گرد وغبار در آتا ہے۔
سانس رُک رُک جاتی ہے۔ لاہور شہر کے منظر کو آنکھ بھر کر دیکھا جائے تو آنکھوں میں مرچیں بھر جاتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور شہر کے منتظمین نے سہل اور سادہ حل یہ نکالا ہے کہ اس شہرِ نگاراں کے بعض سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اوراداروں کو ہفتے میں تین دن بند رکھا جائے۔ پہلے مہلک کورونا نے شہریوں کا جینا حرام کررکھا تھا اور اب لاہور کی ہلاکت خیز آلودگی اور ڈنگی نے زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔ پھر بھی یہ شہر جہاں اقبال اور فیض ایسے خواب دیکھنے والے شاعر آسودئہ خاک ہیں، اپنے دامن میں مقدور بھر رونقیں سمیٹے ہُوئے ہے۔ اِسی شہر میں چند دن پہلے ٹی ایل پی ایسی ہنگامہ خیز نئی جماعت کے بانی مولانا حافظ خادم حسین رضوی صاحب مرحوم کاسہ روزہ عرس منایا گیا ہے۔
ہزاروں چاہنے والوں نے اس میں شرکت کی ہے۔ حافظ صاحب مرحوم کے جواں سال صاحبزادے، حافظ سعد رضوی صاحب، نے نصف برس جیل میں گزارنے کے بعد اس میں یوں شرکت کی ہے کہ حکمران پارٹی کے صوبائی صدر، اعجاز چوہدری، خصوصی طور پر مبارکباد کا گلدستہ لے کر اُن کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہُوئے۔ ملتان روڈ لاہور پر یہ عرس اس شان و شوکت سے منایا گیا ہے کہ لاہور کی اعلیٰ ترین سرکاری مشینری کا تعاون اور محبتیں شاملِ حال تھیں۔ اس خصوصی سرکاری اہتمام سے یہ بھی مترشح ہورہا ہے کہ آیندہ ایام میں موجودہ حکمران جماعت اور ٹی ایل پی کے درمیان کوئی نیا اتحاد بھی جنم لے سکتا ہے۔ نون لیگ بھی ٹی ایل پی سے رابطے کررہی ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
لاہوریوں نے اپنے آلودہ ترین شہر کی مسموم فضاؤں کی پروا کیے بغیر عاصمہ جہانگیر سے موسومہ سالانہ د و روزہ کانفرنس کو کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے۔ وکیل، قانون دان اور انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ علمبردار محترمہ عاصمہ جہانگیر اپنی زندگی میں آمروں اور شخصی حکومتوں کی آنکھوں میں کانٹا بنتی رہیں۔ رخصت ہو کر بھی اُن کی رُوح اور اُن کا پیغام جمہوریت دشمنوں کو چیلنج کررہا ہے۔ اُن کے نام پر بپا کیے گئے دو روزہ سیاسی میلے نے لاہور ہی میں نہیں، پورے ملک میں ہلچل پیدا کر ڈالی ہے۔ بلکہ بعض معنوں میں اس کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔
اس میلے میں وکیلوں، صحافیوں، دانشوروں، سیاستدانوں، منصفوں، طالب علموں نے جس ذوق اور شوق کے ساتھ، بھاری تعداد میں شرکت کی ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ ابھی یہ قوم اصل جمہوریت اور اصل آزادی کے خواب دیکھنے سے دستکش نہیں ہُوئی ہے۔
اس قوم کی اکثریت نے ہنوز اُس پیغام اور خواب کی شمع تھام رکھی ہے جو خواب ہمیں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے دکھا رکھا ہے۔ اِسی خواب کی کامل اور عملی تعبیر کے حصول کے لیے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پورے ولولوں کے ساتھ نعرے لگائے گئے۔
ان نعروں کی گونج ابھی تک چاروں اُور سنائی دے رہی ہے۔ کچھ کانوں پر یہ نعرے گراں بھی گزرے ہیں اور ان کے خلاف سرکاری ناگواریاں بھی سامنے آئی ہیں۔ بعض اطراف سے "عاصمہ فاؤنڈیشن" کے فنڈز کی تحقیقات کرنے کے مطالبات بھی کیے جانے لگے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کے نام سے بپا کردہ یہ کانفرنس مگر اس امر کا پیام دے گئی ہے کہ پاکستان کی تمام اکائیاں اور اس کے تمام باسی جمہوریت، یکجہتی اور اتحاد کی مشترکہ ڈور سے بندھے اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہیں۔
لاہور کے جس مقام پر یہ دو روزہ کانفرنس ہُوئی ہے، اس سے چند قدم کے فاصلے پرایک ایسا ادارہ بھی بروئے کار ہے جسے انفرادیت اور تخلیق کاری کا ادبی عجائب گھر کہا جانا چاہیے۔ ویسے تو اس ادارے کی عمر بھی اتنی ہی ہے جتنی وطنِ عزیز پاکستان کی ہے لیکن اب اس نے ایک نئی شان اور نئی آن کے ساتھ اپنا رُخ بدلا ہے۔
یہ ادارہ "مجلسِ ترقی ادب" کہلاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے صدر دفتر سے متصل۔ ایک خوبصورت چمن کے دامن میں آباد یہ گہوارئہ ادب اپنی نئی شکل اور نئی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہورہا ہے۔ یہاں پاکستان کا پہلا ادبی عجائب گھر بھی بن رہا ہے اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ادبی چائے خانہ بھی۔ اس کی اوریجنل عمارت تو قدیم اور کہنہ ہے لیکن اب نئے منتظم کی نگرانی میں یہاں کچھ نئی عمارتیں بھی استوار ہو رہی ہیں۔ یہ ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں کی جائے پناہ بننے جارہی ہے۔ یہ عمارت کبھی بھوت بنگلہ کی شکل سی تھی لیکن اب اس میں ادب اور خواب کی رنگین اور نئی دُنیا انگڑائی لے رہی ہے۔
اس کی ایک منزل پر ہمارے کئی کلاسیکی شاعروں، ادیبوں اور موسیقاروں سے منسوب کئی یادگاریں رکھی گئی ہیں۔ یہ چھوٹا سا ادبی عجائب خانہ رُوح افزا ہے۔ یہاں کئی ادبی ہستیاں، جو اگلے جہان سدھار چکی ہیں، پھر سے زندہ ہو کر ہمکلامی کرتی محسوس ہوتی ہیں۔
اس مقام پر خرد افروزی کا ایک ننھا سا چراغ روشن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہاں ایک ایسا ماحول زیر تعمیر ہے جہاں داستاں گو فروکش ہُوا کریں گے اور ہمیں خوابوں کی دُنیا میں لے جائیں گے۔ یہاں شاعروں کو، ایک خاص زاوئیے سے، اپنی اپنی تخلیقات سجانے اور آویزاں کرنے کے خاص مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اس گوشے کو "معلقات"کے داستانوی عنوان سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہاں بیٹھنا ایک اعزاز بھی ہے اور خوابوں کی باز آفرینی کا ایک بہانہ بھی۔ ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ مجلسِ ترقی ادب لاہور کا یہ ادارہ سیاست و حسد کے مہلک جراثیم سے محفوظ رہ کر ترقی اور ادب کی جانب اپنے قدم بڑھاتا رہے گا۔