ایک الگ طرز کا نوحہ
ایک ناقابلِ فہم خیال کے تحت مَیں خاصی دیر تک اپنی نجی لائبریری میں کھڑا رہا۔ خالی الذہن کے ساتھ مَیں نے خاموش لائبریری کے چاروں جانب دیکھا۔ دل میں احساس جاگا: کتنی محنت اور محبت کے ساتھ ان کتابوں کو اکٹھا کیا ہے۔
کتنے ہی ملکوں سے اپنے ذوق کی کیسی کیسی شاندار کتابیں اکٹھی کیں۔ ان پرکتنا سرمایہ خرچ ہُوا۔ کتنے قیمتی اور متنوع موضوعات کو محیط عالمی جرائد خریدے۔ ان جرائد میں ادبی بھی ہیں، مذہبی بھی اور زیادہ تر سیاسی۔ اب مگر ان سب کا مستقبل؟ ڈپریشن بڑھ گیا۔ کئی درجن، مگر نہایت قیمتی رسالے، اِسی ڈپریشن میں یکجا کیے۔ ان سب کو بنڈل بناکر رسّی سے باندھا اور کونے میں رکھ دیا۔
کئی روز یہ جرائد، جو کبھی مجھے عزیز از جان ہُوا کرتے تھے، یونہی کونے میں پڑے رہے۔ پھر دل پر پتھر رکھ کر انھیں ردی میں دے ڈالا۔ دل پر چھائی اداسی کی کہر مگر تحلیل ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ میرے بچے آئی ٹی کے طالب علم ہیں۔ انھیں ادب، صحافت، سیاست وغیرہ کی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارے بعد میری عزیز از جان لائبریری شائد بُری طرح اُجڑ جائے گی۔ یا ردی میں چلی جائے گی۔ سوچ کر دل کو دھچکا لگتا ہے۔
مَیں نے یہ واقعہ اپنے ایک دوست سے فون پر شیئر کیا۔ ان کا نام حکیم راحت نسیم سوہدروی ہے۔ لاہور کے ممتاز اور بزرگ معالج۔ اُن کے والدِ گرامی بھی حاذق حکیم تھے، علی گڑھ کے فارغ التحصیل، مولانا ظفر علی خان کے معتمد دوست اور تحریکِ پاکستان کے ممتاز کارکن۔ وہ بھی کتابوں اور اعلیٰ معیار کے جرائد کے عاشق تھے۔ مَیں نے حکیم راحت نسیم سوہدروی صاحب سے پوچھا: آپکے پاس بھی (گاؤں اور لاہور میں) کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے، ان کا مستقبل کیا ہے؟ آپ کے بچوں کا مطالعہ کی طرف رجحان کیسا ہے؟
ہنستے ہُوئے بولے: " اُن کا رجحان بھی اِلاّ ماشاء اللہ اتنا ہی ہے جتنا آپ کے بچوں کا ہے۔" پھر اداسی سے ایک آہ بھر کر بولے: " پچھلی بار مَیں اپنے گاؤں (سوہدرہ) گیا تو مجھے میرا بھانجا کہنے لگا: ماموں جان، گھر میں پڑی پرانی کتابیں اور دیمک زدہ رسالے اُٹھا نہ دیں؟ کمرہ صاف ہو جائے گا۔"صاف" کا لفظ سُن کر مجھے دھچکا سا لگا۔ دل پر بوجھ لیے میں اپنے گاؤں کے دینی مدرسے میں گیا، جگہ دیکھی اور گھر میں رکھی ساری کتابوں کی بھری الماریاں مدرسے میں رکھوا دیں، دل کو یہ تسلی دی کہ یہاں کتابیں محفوظ بھی رہیں گی اور شائد کوئی طالب علم بھول چوک سے کبھی ان کا مطالعہ بھی کر لے گا۔"
حکیم صاحب نے اداس اور غمگین لہجے میں کہا: "لاہور میں بنائے جانے والے گھر میں بھی کتابوں کا ایک ڈھیر لگا رکھا۔ ہماری آنکھیں موندنے کے بعد نجانے ان کتابوں کا کیا بنے گا؟ کچھ معلوم نہیں۔ میرے بچے تو ان کتابوں کی طرف تکتے بھی نہیں۔" الفاظ سُن کر مجھے اپنے گھر کی بازگشت سنائی دینے لگی۔
لاہور کی اَپر مال روڈ پر واقع" ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان" کے پُر شکوہ دفتر میں بیٹھا تھا۔ یہاں میرے دیرینہ دوست جناب نعیم احمد ایک ذمے دار عہدے پر متعینہ فرائض ادا کر رہے ہیں۔ وہ بھی کتاب اور حرفِ مطبوعہ سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ کتاب سے محبت کے جذبے نے ہمیں ایک دوسرے سے مدتوں سے باہم باندھ رکھا ہے۔
راقم اُن کی قیادت میں مذکورہ ادارے کے سربراہ جناب شاہد رشید سے ملنے گیا۔ وہ اپنے دفتر میں تشریف فرما تھا۔ اُن کے عقب میں، بلند کھڑکی کے پار، قدیم چمن کا جنت نظیر سکون نظیر آ رہا تھا۔ شاہد رشید صاحب تندہی اور یک جہتی کے ساتھ، مقدور بھر، نظریہ پاکستان، دوقومی نظرئیے، افکارِ قائد اعظمؒ، فلسفہ اقبالؒاور پیغامِ پاکستان کی تبلیغ و ترویج کررہے ہیں۔ وطنِ عزیز میں کتاب اور صاحبانِ کتاب کے المیوں کے بارے میں باتیں چھڑیں تو شاہد رشید صاحب بھی درد مندی کے ساتھ ایک آہ بھر کر رہ گئے۔
مجھے کہنے لگے:" قوم کا حوصلہ اور کتاب کا کلچر بڑھانے کے لیے کوئی مشورہ دیجیے۔" قوم اور قوم کے حکمرانوں میں کتاب اور صاحبانِ کتاب کے لیے جو احترام پایا جاتا ہے، اس کے پیشِ نظر بھلا مشورہ کیا دیا جاتا؟ شاہد رشید صاحب نے اپنے بچپن اور زمانہ طالب علمی کے ایام میں کتاب سے محبت کے کئی دل افروز واقعات سنائے۔ کتابوں سے وابستہ اب تو یہ واقعات بھی سُننے والے ناپید ہورہے ہیں۔
شاہد رشید نے بڑے رسان سے کہا:" مَیں نے کوشش کی ہے کہ دفتر کے ساتھیوں میں اچھی کتابیں تقسیم کروں، اس خیال کے ساتھ کہ یہ ساتھی بعد ازمطالعہ مجھ سے بحث ومباحثہ بھی کریں گے۔" اُن کے لہجے پر چھائی گمبھیر مایوسی بتاتی تھی کہ وہ اپنی کوشش میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
جو بھی کتاب اور صاحبانِ کتاب سے محبت و اُلفت رکھتا ہے، روز بروز کتاب کے سکڑتے اور محدود تر ہوتے ہُوئے کلچر سے پریشان ہے۔ اُردو کی اچھی اور معتبر کتابوں کی اشاعت کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری اولادوں اور ہمارے طلبا و طالبات کا کتاب سے شغف معدوم ہورہا ہے۔ اس نوحے کی بازگشت چاروں اُور سنائی دے رہی ہے۔ پروفیسر خالد ہمایوں صاحب بھی یہ نوحہ پڑھنے والوں میں شامل ہیں۔ خالد ہمایوں میرے دیرینہ دوست ہیں۔ اورینٹل کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر۔ کتاب کے عاشقِ صادق۔ سیکڑوں کتابیں گھر میں اکٹھی کیں۔ اب سن رسیدہ ہُوئے ہیں تو اپنی کتابوں کے خزانے کا کوئی والی وارث نہیں پا رہے۔ عالمِ جبر میں اور بادلِ نخواستہ اس خزانے کو دوسروں کے سپرد کرنے کی نیت کررہے ہیں۔
اُن سے ملاقات ہُوئی تو افسردگی سے کہنے لگے: "آجکل اپنی ذاتی لائبریری میں پڑی کتابوں کی فہرست بنا رہا ہُوں۔ شائد کسی کی نذر کر دُوں۔" کتاب کے نذرانے سے شائد کسی کا دل، کسی کا دماغ روشن ہو جائے۔ اِس ملک میں کتاب لکھنے والے کی زندگیاں تو روشن نہیں ہو سکی ہیں۔
یہ منظر اداس اور افسردہ کرنے والا ہے۔ لاہور کی مال روڈ پر، چیئرنگ کراس سے چوک مسجدِ شہدا تک، کتابوں کی تین چار بڑی دکانیں ہُوا کرتی تھیں۔ زمانہ طالب علمی سے لے کر ابھی پچھلے چند برسوں تک یہ بک اسٹورز با رونق ہُوا کرتے تھے۔ اب ان کی رونقیں اُجڑ چکی ہیں۔ کتابوں کی یہ دلنواز اور پُر شکوہ دکانیں بند ہو چکی ہیں۔ ان کی جگہ اب خورونوش کے جمگھٹے لگتے ہیں۔ راولپنڈی اورپشاور میں بروئے کار کتابوں کی دونوں بڑی دکانوں کے دروازوں پر بھی قفل لگ چکے ہیں۔
مَیں نے برادرم مجاہد حسین، جو خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں، سے اس المناک منظر کا ذکر کیا تو وہ بھی دل گرفتہ لہجے میں بولے:" میرے پاس بھی سیکڑوں کتابیں ہیں۔ لاکھوں روپے مالیت کی ہوں گی۔ اب خود سمجھتا ہُوں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ سوچ رہا ہُوں کہ کسی ایسے ادارے کو اپنی کتابوں کا ذخیرہ عطیہ کردُوں جس کے بارے میں مجھے یقینِ کامل ہوکہ میری کتابوں کی رکھوالی بھی کرے گا اور لوگوں کو مطالعہ کی طرف راغب کرنے کی سعی بھی کرے گا"۔
ایسے لوگ بھی اب شائد ہی ملیں۔ بجھے دل کے ساتھ یہ بھی لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کتاب سے محبت کرنے والوں کی گھر والیوں کو کتاب سے محبت نہیں ہوتی۔ یہ شائد کتاب کے عشاق کا سانجھا دکھ ہے۔