خیموں کے سائے تلے جنم لیتی زندگی

جلال پور پیراں والا پنجاب کا وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں کے مکین ابھی تک "سیلاب زدگی" کا شکار ہیں۔ اگلے روز صحافیوں کی ایک ٹیم کے ہمراہ صورت حال کا جائزہ لینے گیا تو اندازہ ہوا حالات اس سے زیادہ سنگین ہیں جتنے بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بلا مبالغہ سیکڑوں این جی اوز رجسٹر ہیں، حکومتی انتظامیہ اور ادارے ہیں لیکن ایسی ہر آفت میں جو لوگ سب سے زیادہ متحرک نظر آتے ہیں ان پر اسلام پرستی کا ٹیگ ہے جو قابل فخر ہے۔ یہاں بھی یہی صورت حال تھی۔ لمبی داڑھی، اونچی شلوار، سادہ لباس اور گرد آلود جوتی پہنے درجنوں افراد اس طرح متحرک تھے جیسے ان کا اپنا گھر تباہ ہوگیا ہے۔
ہمارا پہلا پڑاؤ ایک خیمہ بستی میں تھا۔ یہ مرکزی مسلم لیگ کے رضا کاروں نے بنایا تھا اور مسلسل اس بستی کے انتظامات چلا رہے ہیں۔ چہروں پر تھکن تھی، بدن لاغر تھا لیکن ہمت جواں تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ سندھ سے آئے ہیں۔ یہ خیمہ بستی سندھ کے نوجوانوں کے ذمہ ہے، ہر ہفتے مختلف اضلاع سے نوجوان آتے ہیں اور اپنے خاندان کی طرح متاثرین کی مدد کرتے ہیں، کبھی کراچی سے، کبھی حیدرآباد ہے تو کبھی سانگھڑ سے یہاں آ کر فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں۔ یہاں ایک خیمہ بستی میں 148 خیمے ہیں جن میں ایک ہزار سے زائد لوگ آباد ہیں۔
سندھ سے آئے رضاکاروں کے اس کیمپ میں پاکستانیت سب سے مضبوط نظر آئی۔ صوبائیت اور لسانیت سے کہیں آگے ان کا رشتہ پاکستان اور اسلام سے جڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے رضاکاروں نے یہاں آ کر پانچ خیمہ بستیاں آباد کی ہیں جہاں پانچ ہزار سے زائد لوگ ہیں۔ اس کے بعد ہم فیصل آباد سے آئے رضاکاروں کی آباد کی گئی خیمہ بستی میں بھی کچھ دیر رکے، یہاں ایک پٹرول پمپ کے مالک نے اپنا پٹرول پمپ خالی کرکے انہیں جگہ مہیا کی تھی۔
گزشتہ پندرہ روز سے پٹرول پمپ بند ہے اور اس جگہ خیمہ بستی آباد ہے۔ یہ دیکھ کر مواخات مدینہ یاد آیا کہ ہمارے اسلاف کی روایات یہی ہیں۔ یہاں الخدمت کی خیمہ بستیاں بھی ہیں، الخدمت کے رضاکار بھی متحرک ہیں۔ مرکزی مسلم لیگ البتہ سب سے پہلے یہاں پہنچی اور سب سے زیادہ متحرک نظر آئی۔ ان کے ریسکیو آپریشنز میں کشتیاں بھی شامل ہیں جو ڈوبنے والوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ ان مقامات پر روزانہ کی بنیاد پر کھانا اور صاف پانی پہنچا رہی ہیں جہاں کے مکین کسی بھی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے کو تیار نہیں اور چاروں جانب سے پانی میں گھرے ہیں۔ یہیں مرکزی مسلم لیگ کے رضاکار بابر سے ملاقات ہوئی۔
بابر ماہر تیراک اور کشتی ڈرائیور ہے لیکن اتنا تعارف کافی نہیں ہے۔ یہ نوجوان اپنی ذاتی حد تک اب تک دو ہزار سے زائد افراد کو ڈوبنے سے بچا چکا ہے یعنی دو ہزار سے زائد افراد کی زندگیاں بچانے والا یہ نوجوان ہمارا اصل ہیرو ہے۔ یہ کئی روز سے گھر نہیں گیا، اس کے دن رات پانی اور کشتی پر گزر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اگر تمغہ جرأت کو عزت دینی ہے تو بابر اور اس جیسے رضا کاروں کو یہ قومی اعزاز دینا چاہیے۔ یہ اعزاز اسے ملے گا تو اس تمغہ کا احترام مزید بڑھے گا۔ یہیں ایک اور المیہ دیکھا جس کی جانب توجہ نہیں کی جا رہی۔
اس علاقے میں مختلف تنظیمیں خیمہ بستیاں آباد کر رہی ہیں، انفرادی حیثیت میں بھی خیمے، ادویات، کپڑے، کھانا اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد سڑک کنارے بے یارو مددگار بیٹھی ہے۔ خیمہ بستی میں خواتین بچوں کو جنم دے رہی ہیں جنہیں یہی تنظیمیں ہسپتال لیجا رہی ہیں اور مدد مہیا کر رہی ہیں لیکن حاملہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اس وقت بھی سڑک کنارے چادر کی چھت بنائے زمین پر لیٹی ہیں۔ گرمی، دھوپ کی تپش، حبس، ناکافی خوراک اور دیگر مسائل اپنی پوری شدت سے قائم ہیں۔ ان خواتین کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ان کا کوئی مستند ڈیٹا بھی نہیں مل سکا۔ یہ کام رضاکار تنظیموں کی استطاعت سے باہر ہے۔ یہاں ریاست کو ماں بننا ہوگا۔ اس علاہ یہاں زچہ بچہ کے لیے ایک بڑا میڈیکل یونٹ درکار ہے جہاں ان ماؤں کا مکمل چیک اپ، علاج اور ہر طرح کی میڈیکل سہولیات مہیا کی جائیں اور گائنی ڈاکٹر دستیاب ہوں۔ روایتی چھوٹی ڈسپنسریوں میں ان کے علاج اور ضروریات کی سہولیات ناکافی ہیں۔ ان مسائل کے باوجود دیکھیں تو مجموعی طور پر جلال پور پیراں والا میں مرکزی مسلم لیگ سب سے آگے نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے ہر خیمے کو سولر پلیٹ اور پنکھا مہیا کر دیا ہے، بچوں کو ایکو اینگزائٹی سے نکالنے کے لیے جھولے اور عارضی خیمہ سکول بھی موجود ہے۔ ہر خیمہ بستی میں ایک میڈیکل کیمپ بھی ہے، مویشیوں کے لیے بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے
کہ دو ہفتوں میں بیشتر لوگ واپس چلے جائیں گے تو انہیں سولر پلیٹ اور خیمے سمیت ایک سے ڈیرھ ماہ کا راشن مہیا کیا جائے گا تاکہ اپنے گھروں کو قابل رہائش بنانے تک ان کے پاس اپنے گھر کے سامنے عارضی قیام کے وسائل موجود ہوں۔ انہوں نے بونیر میں بھی 52 بیواؤں کو ایک ایک لاکھ روپے مالی مدد فراہم کی تھی۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کب تک؟ خیمے عارضی ہیں۔ خوراک کا ذخیرہ ایک سے ڈیڑھ ماہ کا ہے۔ پھر کیا ہوگا؟ یہ لوگ واپس جائیں گے تو کھنڈر ان کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔ وہاں سکول نہ ہسپتال اور نہ روزگار۔ اگر ریاست اور سماج نے ان کا ہاتھ نہ تھاما تو یہ لوگ ہمیشہ کے لیے غربت اور بے بسی کے دائرے میں پھنس جائیں گے۔
یہ وقت سیاست کا نہیں، خدمت کا ہے۔ اگر ہم نے ان لوگوں کو محض چند دنوں کی امداد دے کر بھلا دیا تو یہ ہماری اجتماعی بے حسی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کی بحالی کے لیے مستقل منصوبے بنائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ وہ تنہا نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ ریاست اور مخیر حضرات مل کر فوری طور پر حاملہ خواتین کے لیے زچہ بچہ کا بڑا یونٹ بنائیں، یہ خواتین دھوپ کی شدت میں سڑک پر لیٹی ہیں۔ ان کی مدد ہمارا فرض ہے، احسان نہیں۔

