Sharing is caring مگر اب نہیں!!
دسمبر 2019ء سے لے کر اب تک، دنیا کتنی بدل گئی ہے، زندگی کتنی مختلف ہو گئی ہے!! اس کا اندازہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سب کو ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے جو وبائی امراض پچھلی تین دہائیوں میں پھیلے، ان کی تباہی اور دائرۂ کار اتنا وسیع نہ تھا اور ایک صدی قبل کے تباہ کن وبائی امراض کے وقت ہم ابھی اس عالم فانی میں نہیں آئے تھے تو ان کے بارے میں ہمارا علم کتب اور فلموں تک ہی محدود تھا۔ اب ہم اس مہلک وائرس کو جی رہے ہیں، جس نے نہ صرف ہماری زندگیوں کا ڈھب بدل دیا ہے بلکہ ہمیں باطن سے بھی تبدیل کر دیا ہے۔
دنیا میں سوچ اور طریقہء کار تو پہلے بھی بدل رہے تھے۔ دس سال قبل ہم کینیڈا گئے تو اس وقت تک راحم ابتدائی کلاسوں میں تھا اور اس کے اسکول میں sharing is caring ان کی تربیت کا حصہ تھا، بچے اسکول میں آپس میں نہ صرف کتابیں، پنسل اور شارپنر مستعار لے کر استعمال کرلیتے تھے بلکہ اپنے گھر سے لائے ہوئے لنچ باکس کو بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھاتے تھے اور یہ سب سن اور دیکھ کر خوشی ہوتی کہ یہی تو ہمارے مذہب کی تعلیمات بھی ہیں۔ ایک بات اسے سمجھا رکھی تھی کہ وہ کسی اور کے لنچ باکس سے کوئی ایسی چیز نہ کھائے جس میں گوشت ہو یا کوئی تلی ہوئی چیز، جس کی چکنائی مشکوک ہو سکتی ہے۔ ویسے تو ان کے اسکول کی طرف سے آرڈر تھا کہ بچے Junk کھانا اسکول میں نہ لے کر آئیں … اس لیے بچوں کے لنچ میں سینڈوچ، پھل، کٹی ہوئی سبزیاں، کھیرے ٹماٹر وغیرہ یا خشک میوہ جات ہوتے تھے۔
پانچ سال قبل کینیڈا گئے تو چیزیں بدل چکی تھیں۔ راحم ابتدائی کلاسوں سے نکل کر سیکنڈری اسکول میں آ چکا تھا۔ اب ان کے اسکول میں Sharing is not caring کی نوعیت کا سبق سکھایا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہی ہوئی تھی کہ کچھ بچوں کو کچھ غذائی اشیاء ( مثلا گندم، ڈیری کی مصنوعات، خشک میوہ جات یا نشاستہ دار غذا) سے الرجی ہوتی ہے، گھروں میں تو والدین ان کے لیے اس کا خاص خیال رکھتے ہیں مگر اسکول میں وہ اپنے ہم جماعتوں سے لے کر کیا کھالیں، اسے چیک نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک دو واقعات ایسے ہوئے کہ بچہ ایسی چیزیں کھا کر مرتے مرتے بچا اور اس کے بعد نہ صرف Sharing is caring کا بیانیہ تبدیل ہوا بلکہ بچوں کو اسکول کے لیے لنچ میں کیا کیا دیا جا سکتا ہے، اس کا دائرہ مزید تنگ کر دیا گیا تھا۔ یہ سن کر ہلکا سا دکھ بھی ہوا کہ بچہ زندگی کا ایک اچھا سبق سیکھ رہا تھا مگر اس سے وابستہ ایک فکر کہ کہیں وہ کوئی غلط چیز نہ کھا لے، اس کی بے فکری بھی ہو گئی تھی۔
چند سال پہلے اپنی ملازمت کے دوران ہم بھی اپنے چھوٹے بچوں کو عملی طور پر sharing is caring کا سبق سکھاتے تھے مگر آہستہ آہستہ ہمارے ہاں بھی والدین نے لکھ کر نوٹس بھیجے کہ ہمارے بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ لنچ شئیر نہ کرنے دیا جائے… جانے وہ کیا غلط سلط کھا لے اور جانے دوسرے بچوں کے گھروں میں بچوں کا لنچ بناتے وقت حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہیں۔ ان کا نکتۂ نظر بالکل درست تھا سو ہم نے بھی اپنے نعرے کو بدل لیا۔
باہر کے ممالک سے ہم بھی سیکھتے ہیں، ہم نے بھی والدین پر زور دیا کہ وہ بچوں کو junk food لنچ باکس میں نہ دے کر بھیجا کریں۔ مہینے میں ایک دن ہم اس کی اجازت دیتے تھے… اس کی بھی جانے کیا تک تھی۔ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ مہینے میں ایک دن اسکول میں no uniform day ہوتا تھا اور ایک دن junk food day، ہمارے اسکول کے بچے ان دو دنوں کے لیے گن گن کر پورا مہینہ گزارتے تھے۔
اس کے پیچھے نفسیات یہی ہے کہ ہم من حیث القوم ڈسپلن کو پسند ہی نہیں کرتے، جو چیز ہمارے فائدے کے لیے ہوتی ہے اسے ہم پابندی سمجھ کر ناپسندکرتے ہیں، خواہ وہ قطار بنانے کا عمل ہو، اپنی باری کا انتظار کرنا، قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا، ٹریفک کے اصولوں کی پابندی یا کوئی بھی عائد کردہ پابندی جس کا اصل مقصد ہمارا ہی فائدہ ہو۔ ہم ایسی پابندیوں کو نہ صرف ناپسند کرتے ہیں بلکہ انھیں روند اور مسل کر زندگی گزارتے ہیں۔
اب ہماری اسی نفسیات کوموجودہ حالات کے تناظر میں لے لیں، جس جس چیز سے منع کیا جاتا ہے وہی ہم نے خاص طور پر کرنا ہوتی ہے… ہمیں کہا جاتا ہے کہ سورج گرہن کو نہ دیکھیں کہ یہ ہماری آنکھ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے… مجھ سمیت سب لوگوں نے کہا، " لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے… " پابندی کو توڑنے میں شیطان جو ہمارا معاون ہوتا ہے۔
شروع میں کورونا کے پھیلاؤ کے خوف نے ہمیں واقعی اپنے اپنے گھروں میں محصور کردیا اور ہم خود کو محفوظ بھی سمجھتے تھے، پھر ہمیں یہ پابندی بوجھ لگنے لگی اور یوں بھی من میں شوق سمانے لگا کہ باہر نکل کر دیکھیں تو سہی کہ کورونا دیکھنے میں کیسا ہے!! پہلا کیس ہمارے ہاں غالبا جنوری کے مہینے میں آیا تھا اور اس کے بعد تعداد چیونٹی کی رفتار سے بڑھنا شروع ہوئی مگراپریل سے لے کر اب تک تو کورونا خرگوش کی طرح زقند لگا رہا ہے۔ ہمارے ہاں لاک ڈاؤن کی جتنی قسمیں دریافت اور نافذ کی گئی ہیں اتنی تو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کر سکا، کوروناتو خود پریشان ہے کہ اس ملک کا کیا کروں !!
خریداری ہم نے کرنا ہے… سارے برانڈز نے سیل بھی لگا دی ہے کہ لوگ گھروں سے نکلیں، سالگرہیں ہم نے منانا ہیں، شادیاں اب نہ کیں تو جانے قیامت آجائے اور شادیاں نہ ہو سکیں۔ عید کے موقع پر دعوتیں ہم نے لازمی کرنا تھیں، گھروں میں آمدورفت کے سلسلے ہم نے مسلسل رکھے ہیں، مذہبی اجتماعات، جنازے، بسوں اور ویگنوں میں ٹھونس ٹھونس کر بھرے ہوئے مسافر، "حکومت کی طرف سے متعین کی گئی ہدایات کی ایسی کی تیسی!! " شہروں میں سڑکوں کے کنارے، فٹ پاتھوں پر ہنسی مذاق کرتے اور گپ شپ لگاتے نوجوان، کافی ہاؤس کے باہر اپنی گاڑیوں کے پاس کھڑے دوستوں کے اجتماعات، دیہات کے اڈوں پر ایک ایک چارپائی پر حقے کے گرد بیٹھے ہوئے چھ چھ بابے اور گھروں کی ڈیوڑیوں میں محفلیں سجائے ہوئے عورتیں، یہ اب اب تک کوورنا کو مذاق ہی تو سمجھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جو تصاویر اور پوسٹ وائرل ہوتی ہیں وہ اپنے ملک تک ہی محدود نہیں رہتیں بلکہ دنیا بھر میں پہنچتی ہیں اور دنیا بھر میں ہمارے ملک کا ٹھٹھا اڑایا جاتا ہے کہ کس قدر جاہل قوم ہیں اور ایسے میں اگر ہماری کسی صوبے کی وزیر صحت نے ہمیں جاہل قوم کہہ دیا تو ہمیں کتنا برا لگا، انھوں نے ہمیں آئینہ ہی تو دکھایا ہے۔
ماسک کے بارے میں اتنی پوسٹ وائرل ہوئی ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ ناقص کوالٹی کے ماسک، ماتھے پر رکھے ہوئے ماسک، ٹھوڑی کے نیچے ماسک، سر کے پچھلی طرف اٹکائے ہوئے ماسک اور تو اور پیروں کی ایڑیوں کے نیچے اڑسے ہوئے ماسک… کسی نے پتوں سے ماسک بنا رکھا ہے تو کسی نے نماز والی ٹوپی سے۔ غرض ایسی ایسی دریافتیں ہمارے لوگوں نے کر رکھی ہیں کہ دنیا اس قوم کی ذہانت پر حیران ہے اور کورونا پریشان ہے۔ بدنام تو ہم ویسے بھی کافی ہیں لیکن جب میں کوئی ایسی پوسٹ دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس کا کہیں نہ کہیں تو اختتام ہونا چاہیے۔
اسے مزید وائرل ہونے سے روکنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ چلیں ہم کورونا کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور اس کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں مگرکورونا سنجیدگی سے لینے کی چیز ہے۔ اگر ہم اسے اب بھی مذاق ہی سمجھتے رہے، سنجیدگی سے نہ لیا، حکومت اور حکومتی اداروں سے تعاون نہ کیا تو دنیا کے سارے ممالک اس پر قابو پا لیں گے مگر ہم اسے اپنے ملک میں رہنے دیں گے… کیا ہم کورونا کے اچھے میزبان بننا چاہتے ہیں؟ ؟