نظام تعلیم، تیرا اللہ حافظ
"فلاں فلاں کالج کے چوراسی طلباء و طالبات نے، ایف اے ؍ ایف ایس سی کے امتحانات میں گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کیے ہیں! "
کسی نے ایک گروپ میں خبر لکھی اور اگلاکمنٹ یہ تھا کہ یہ تو ایک شہر کے ایک کالج کی بات ہے، ہزاروں اداروں کے لاکھوں طلباء اور طالبات نے گیارہ سو میں سے ایک ہزار پچاس سے اوپر نمبر حاصل کیے ہیں۔ ایسی بات سن کر منہ حیرت سے کھل جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں اتنے ذہین اور فطین لوگ موجود ہیں، دوسری طرف وہ بچے جنھیں چالیس فیصد سے کم نمبر ملے ہیں … اس کے بعد کا مرحلہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کا ہے، جہاں ان بچوں کی کھپت کرنا ہی مشکل ہو جائے گا کہ جنھوں نے ساٹھ ستر فیصد سے زائد تک نمبر اسکور کیے ہیں۔ اس سے کم والوں کی کہاں شنوائی ہے!!
کورونا کے باعث پیدا شدہ صورت حال سے ساری دنیا کی طرح ہمارا نظام تعلیم بھی بے حد متاثر ہوا ہے۔ لگ بھگ دو سال سے تعلیمی ادارے زیادہ تر بند ہی رہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر ادارے کے پاس آن لائن کلاسز کی سہولت ہونا ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ برس سب بچوں کو بغیر امتحانات لیے اگلی کلاسوں میں ترقی دے دی گئی کہ کورونا کی صورت حال اس وقت بہت خراب تھی، جس کی وجہ سے امتحانات لینا ممکن نہ تھا۔
وزارت تعلیم کے فیصلے کیمطابق، اس سال، ایف اے کے طلباء اور طالبات کا تین اختیاری مضامین کا امتحان لیا گیا ہے اور میٹرک کا ریاضی کا اور اس کے ساتھ تین اختیاری مضامین کا امتحان لیا گیا ہے۔ اس کا مکمل فائدہ ان طلباء اور طالبات کو ہوا ہے جو کہ سائنس یاکمپیوٹر کے مضامین پڑھتے ہیں۔
ایف اے کے تین اور میٹرک کے چار مضامین کے پرچوں کی بنیاد پر نتائج تیار کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جن مضامین کے ساتھ پریکٹیکل ہوتے ہیں، بائیولوجی، فزکس، کیمسٹری اور کمپیوٹر، ان کے پریکٹیکل لیے بغیر، بچوں کو اس کے پورے پورے نمبر دے دیے گئے ہیں۔ سائنسز کے طلباء اور طالبات کے لیے تو ان مضامین میں نوے فیصد سے لے کر سو فیصد تک نمبر حاصل کر لینا ممکن ہوتا ہے، اس کے برعکس آرٹس کے گروپ میں کوئی ایسا مضمون نہیں ہوتا کہ جن میں بچے پورے پورے نمبر حاصل کر سکیں۔
تین اور چار مضامین کا امتحان لے کر، ان مضامین میں بھی ان بچوں کو اتنے ہی نمبر دے دیے گئے ہیں، جن مضامین کے پرچے سرے سے لیے ہی نہیں گئے۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچہ ریاضی اور فزکس میں پورے نمبر لے لے تو وہ اردو اور اسلامیات یا کسی اور لازمی مضمون میں پورے نمبر لے سکتا ہے۔ اسی بودے سے مارکنگ کے فیصلے کے باعث اس طرح کے نتائج سننے میں آ رہے ہیں جو کہ ممکنات میں سے نہیں کہ بچوں نے گیارہ سو میں سے گیارہ سو مارکس حاصل کیے ہیں۔
بچے جو کہ عام حالات میں امتحانات کے لیے محنت کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر انھیں کسی اختیاری مضمون میں مشکل ہو تو وہ لازمی مضامین میں محنت کر کے اچھے نمبر حاصل کر لیتے ہیں جس سے ان کے نتائج بہتر ہوجاتے۔ جن بچوں کے پاس سائنس کے مضامین ہیں، جیسے ریاضی، فزکس اور کمپیوٹر کہ جن میں پورے نمبر آنے کے امکانات ہوتے ہیں، انھیں فائدہ ہو گیا اور آرٹس کے مضامین والے بچے اس دوڑ میں پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
جب آپ نے پرچے ہی تین اور چار لیے ہیں اورکل نمبر تین سو اور چار سو ہیں تو گیارہ سو میں سے نتائج بنانے کا کیا فائدہ؟ جن مضامین کو بچوں نے پس پشت ڈال دیا تھا، یہ جان کر کہ ان کا امتحان ہی نہیں ہونا، اس میں سے انھیں صد فی صد نمبر دے دینا، بندر بانٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے ہاں اس نوعیت کا فیصلہ کرنے سے پہلے، کیا دنیا بھر کے باقی ممالک کے تعلیمی نظام میں کورونا کے باعث ہونے والے فیصلوں یا تبدیلیوں کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ نہیں؟ کہاں پر ایسی اندھیر نگری مچی ہے کہ یوں نمبروں کے انبار لگا دیے گئے ہیں؟ کس کو یہ دکھانا مقصود ہے؟ جن مضامین کا امتحان ہی نہیں ہوا ان میں نمبر دینا کہاں کا اصول ہے؟ کیا نتائج کم نمبروں کی بنیاد پر نہیں بنائے جا سکتے تھے؟
فطری سی بات ہے کہ ہر طالبعلم کا رجحان پڑھائی میں، تمام مضامین میں یکساں نہیں ہو سکتا۔ سائنس کے مضامین میں اچھی کارکردگی دکھانے والے بچے، کئی لازمی مضامین میں کمزور استعداد رکھتے ہیں اور اسی طرح اختیاری اور سائنس کے مضامین میں کمزور بچے، لازمی مضامین میں بہتر استعداد کی بنیاد پر اپنی کجی کو ان مضامین میں بہتر کارکردگی دکھا کر، اعتدال میں کرلیتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ یہ ساری لاٹ جو اس وقت فطین بچوں کی تیار ہو گئی ہے، اس کا مستقبل کیا ہے؟
اسی نوعیت کی ایک اخباری خبر پڑھی کہ پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے 137 امیدواروں نے امتحان دیا اور ان میں سے کسی ایک نے بھی پاس نہیں کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں نے ایم اے اور ایم فل کر لیا ہوتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، اتنے امیدوار اور ان میں سے ایک بھی اس قابلیت کا نہیں تھا کہ پی ایچ ڈی کے لیے داخلے کا امتحان پاس کرتا، اس سے پچھلی ڈگریاں بھی مشکوک ہوجاتی ہیں۔ اس سے قبل بھی ایف اے اور ایف ایس سی کے امتحانات میں بے شمار نمبر حاصل کرنیوالے بچے، پیشہ ورانہ اداروں میں داخلے کے لیے ہونیوالے ٹیسٹ میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں کئی طرح کے سکینڈل مشہور ہوئے ہیں، جن میں امتحانی پرچہ جات کے لیک ہونے سے لے کر، زیادہ نمبر حاصل کرنے کے لیے رقوم تک دی جاتی رہی ہیں۔
ڈگری کا حصول اتنی کم رقم میں ممکن ہے کہ امتحانات دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ اس ملک میں گاڑیاں، جہاز اور تو اور ملک کو چلانے والے بھی جعلی ڈگریوں کے مالک پائے گئے ہیں۔ ذاتی مفادات کے لیے کوئی کس حد تک جا سکتا ہے، کوئی اخلاقیات ہی نہیں ہیں نہ کوئی ضابطہ، نہ قانون۔ اب ہم نے نظام تعلیم کو کھلواڑ بنا کر، لاکھوں " ذہین اور فطین" بچوں کا ایک ایسا گروہ تیار کر دیا ہے، جن کے لیے نہ آج پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں کافی نشستیں ہوں گی نہ چند سال کے بعد ملک میں ملازمتیں ہوں گی۔
آج حکومت کئی معاملات میں، ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کے رونے روتی ہے کہ ان کے ہاتھوں اس ملک کا کباڑا ہو گیا ہے، خواہ وہ کوئی بھی حکومت تھی اور کوئی بھی منصوبہ … جس کا شاخسانہ اب ہمیں دیکھنا پڑ رہا ہے۔
نہ اس نوعیت کی وباء گزشتہ پچھتر برسوں میں اس ملک کے باسیوں نے دیکھی، نہ ہی اس طرح کے حالات ہوئے کہ تعلیمی نظام اس طرح متاثر ہوا کہ ایسے فیصلے کرنا پڑے۔ ہاں ہمارے بچپن میں بھی کبھی ایک بار ایسا ہوا کہ ملک بھر میں تمام بچوں کو بغیر امتحان کے اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی گئی تھی لیکن اس سے وہ جماعتیں مستثنی تھیں، جن کا بورڈ کے تحت امتحان ہوتا ہے۔ ان کے امتحانات بدیر ہوئے مگر ہوئے، کیونکہ اس معیار تک جانے کے لیے امتحانات کے مراحل سے گزرنا اہم ہے۔ لیکن اس حکومت نے اس بارے میں نہیں سوچا اور جانے کیا ذہن میں رکھ کر ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس کا خمیازہ اس کے بعد آنیوالی ایک نہیں، کئی نسلیں بھگتیں گی۔
اس کے بعد آنیوالے وقتوں میں ملک میں بن جانیوالے ڈاکٹر، انجینئرز اور باقی پیشہ ور لوگ ایسے ہوں گے جن کی اہلیت مشکوک ہو گی اور اس کا نقصان، ہم آج نہیں دیکھ رہے مگر آنیوالا وقت ہمیں اس کے برے نتائج کا آئینہ جلد ہی دکھادے گا۔ کیا اب اس سلسلے میں کچھ کیا جا سکتا ہے؟ کیا ان نتائج کو منسوخ کر کے، دوبارہ نتائج تیار کیے جا سکتے ہیں؟ کیا تمام طلباء اور طالبات کو کسی اور یکساں امتحان سے گزارا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر انتظار کریں کہ آنے والا وقت، ہمارے لیے اپنے دامن میں کیا کیا نقصانات لے کر آ رہا ہے۔