ایک اور 5 فروری آ گیا!
ایک اور پانچ فروری آ گیا۔ آج ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ آج پھر سیمینارز، کانفرنسیں، ریلیاں اوراحتجاجی مظاہرے ہوں گے۔ کئی کلو میٹر کی ہاتھوں کی زنجیریں بنیں گی۔ چوکوں اور چوراہوں پر بھارتی اور امریکی حکمرانوں کے پتلے نذر آتش ہوں گے۔ گزشتہ 31 برس 1990 سے 2021 تک ہم ہر سال پانچ فروری کو یہی تو کرتے آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ تیس اکتیس برس میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل میں کتنوں کو پانچ فروری کو منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیر کی تاریخ کے بارے میں معلوم ہے؟ کتنے نوجوان ہیں، جو یہ جانتے ہیں کہ اس دن کو منانے کا کیا مقصد ہے اور اس دن کو منانے کی روایت کیسے شروع ہوئی؟ پاکستان میں پانچ فروری کو بطورِ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز کیسے اور کیوں کر ہوا؟ نوجوانوں کے ساتھ عوام کی بھی ایک بڑی تعداد شاید یہ نہیں جانتی کہ ہم نے اس دن کو اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر کب اور کیسے منانا شروع کیا اور کس شخصیت نے سب سے پہلے قومی سطح پر اس دن کو منانے کا مطالبہ یا تجویز پیش کی۔
پہلی مرتبہ یہ دن 5 فروری 1990 کو منایا گیا اور تب سے اب تک یہ دن منایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے حکمران اور عوام کئی مواقعوں پر کشمیر میں بسنے والی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ہیں، لیکن اس کے لیے کوئی مخصوص دن مقرر نہیں تھا۔ پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر پہلی مرتبہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر 1990 میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی تجویز یا مطالبے پر باقاعدہ سرکاری سطح پر منایا گیا۔ اس وقت نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جبکہ بے نظیر بھٹو شہید ملک کی وزیر اعظم تھیں۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول یہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آئیڈیا سب سے پہلے سردار محمد ابراہیم نے پیش کیا تھا، جسے قاضی حسین احمد نے آگے بڑھایا۔ خیراس بحث سے ہٹ کر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان دنوں قاضی حسین احمد نے ایک پریس کانفرنس کی اور پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان کے حکمرانوں اور عوام دونوں نے اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھا ہے، گزشتہ 70 دہائیوں سے کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری و ساری ہے۔ پاکستان میں اس عرصے میں درجنوں حکومتیں تبدیل ہو چکیں، مگر اس کے باجود پاکستان کی کشمیر کے متعلق اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان کی کو ششوں سے آج مسئلہ کشمیرپوری دنیا کے سامنے ایک فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے اجاگر ہو چکا ہے۔ ستمبر 2019میں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب مسئلہ کشمیر پر تقریر کی، تو انہیں ناصرف سفیر کشمیر کا خطاب دیا گیا، بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں کرفیو کے باوجود کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے اورکشمیر بنے گا پاکستان کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسمبلی میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا، کیونکہ بھارت نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر رکھا ہے وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر یوں کو درپیش مصائب و مشکلات کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھر پور اور موثر انداز میں اجاگر کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری کو بتایا کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی 11 قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے اور مقبوضہ وادی میں اپنی پہلے سے قابض فوجوں کے ساتھ ضافی فوجی نفری بھی تعینات کر دی ہے۔
اب تو ارنب گوسوامی کی لیک ہونے والی واٹس ایپ چیٹ بھی بھارت کا پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈا، پلوامہ کا جعلی ڈراما اور فالس فلیگ آپریشن کا کچا چھٹابھی کھول چکی ہے۔ پاکستان، بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت بھی ایک ڈوزیئر کی شکل میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو پیش کر چکا ہے۔ کشمیر کی موجودہ صورت ِ حال اقوام متحدہ کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکی ہے، کیونکہ یہ اقوام متحدہ ہی تھا، جس نے 5 جنوری 1947 کو کشمیریوں کو حق خودارادیت کی ضمانت دی تھی، مگر آج 72 برس گزرچکے، لیکن اقوام متحدہ اپنی قرارداد پر عملدآمد نہیں کروا سکا۔ عالمی برادری پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کے خلاف ایکشن لے اور سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری غیر انسانی کرفیو کو فوری طور پر ختم کروایا جائے۔
آج پانچ فروری2021 کو 31 واں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے اور اکتیس برس گزرنے کے بعد آج تحریک آزادی کشمیر ایک فیصلہ کن اور انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ آج پورے ملک میں سرکاری طور پر تعطیل منائی جا رہی ہے۔ ایک طرف ہم کشمیر کو اپنی شہہ رگ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف کشمیر میں جاری بدترین کرفیو اور لاک ڈائون ہے اور ہماری شہہ رگ ہمارے روایتی اور ازلی دشمن کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور ہم صرف احتجاجی مظاہرے اور سیمیناز منعقد کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا قومی فریضہ انجام دے دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک طرف صرف قرار دادیں منظور کی جائیں اور دوسری طرف روزانہ سرکٹوائے جائیں؟ ایک طرف مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات پر زور دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف کشمیری کئی برسوں سے بھارتی محاصرے اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یقیناً پاکستان کی 22 کروڑ عوام کی موجودگی میں کشمیر کا کوئی سودا نہیں ہو سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایک دن کویکجہتی کشمیر سے منسوب کر کے ہم نے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ اس پر سوچنا ہو گا، کیونکہ آج پھر پانچ فروری ہے۔ آج کا دن بھی گزر جائے گا، لیکن انتظار اس دن کا ہے، جب کشمیریوں کو آزادی ملے گی اور کشمیرمیں جاری ظلم کا خاتمہ ہو گا۔