یوسف خان، المعروف دلیپ کمار
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
فلمی دنیا کے بے تاج شہنشاہ یوسف خان، المعروف دلیپ کمار بھی گزشتہ 7 جولائی کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوکر ملکِ عدم روانہ ہوگئے۔ ان کے ساتھ ہی دنیائے فلم کا ایک زریں عہد تمام ہوا۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے:
خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے پھر بھی وہی رونق ہے مجلس کی
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کے اس سرائے فانی سے چلے جانے کے بعد بھی آنے والوں کا سلسلہ کبھی ختم ہوا ہے اور نہ آیندہ کبھی ہوگا۔ لوگ آتے رہے ہیں، اور آتے رہیں گے۔ لیکن اقبال کا یہ کہنا بھی حرف بہ حرف بجا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دلیپ کمار پر یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ ان جیسا بے مثل اداکار شاید صدیوں بعد بھی پیدا نہ ہو سکے گا۔ وہ ایک لاثانی اور لافانی اداکار تھے۔ وہ اداکاری کی روح اور آب روح تھے۔ اداکار تو اور بھی ہیں، لیکن کوئی ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ ان جیسا اداکار نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ غالب کا یہ شعر اس حقیقت کی تائید کرتا ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
دلیپ کمار کی اداکاری کا دور ایک طویل مدت پر محیط ہے۔ بقول حفیظؔ جالندھری:
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
مغل بادشاہوں نے تو عوام الناس کے سروں پر حکمرانی کی تھی، لیکن یوسف خان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے بے شمار فلم بینوں کے دلوں پر مدت دراز تک حکمرانی کی جس کے نقوش ہمیشہ کے لیے قائم رہے۔ اس نابغۂ روزگار الفاظ کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کرنا ناممکن نہ سہی، مگر آسان بھی نہیں۔ اداکاری کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ حقیقت کو سچ کرکے دکھانا بہت مشکل کام ہے۔ مگر یوسف خان نے پردۂ سیمیں پر جو کچھ کرکے دکھایا اس پر محض اداکاری کا گمان نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ حقیقت ہی ہوتی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی بھی حقیقت سے عبارت تھی۔
وطن عزیز پاکستان کا شہر پشاور صرف تاریخی اعتبار سے ہی مشہور و معروف نہیں ہے بلکہ عظیم فنکاروں اور شہرۂ آفاق اداکاروں کی جائے پیدائش کے لیے بھی اپنا ایک مخصوص مقام رکھتا ہے، جن میں پرتھوی راج کپور، اور ان کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے فلمی اداکار راج کپور اور برادران جیسے اداکار بھی شامل ہیں۔ لیکن دلیپ کمار کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے پشاور کو جو اہم مقام حاصل ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ دلیپ کمار محض ایک بے مثل فلمی اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ایک پہلودار شخصیت کے مالک بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک صاحب دل وسیع النظر انتہائی مخیر، علم دوست انسانیت کے علم بردار بھی تھے۔ مرزا غالبؔ کے بقول:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ان کا ذوقِ مطالعہ انتہائی بلند اور وسیع تھا۔ پشتو تو خیر ان کی مادری زبان ہی تھی، لیکن اردو کے علاوہ انھیں انگریزی اور ہندی پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان تینوں زبانوں پر انھیں غیر معمولی عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ڈائیلاگ کی ادائیگی کے وقت الفاظ کے تلفظ پر انھیں قدرت حاصل تھی، جس میں ان کا مدمقابل نہ کوئی تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ شعر و ادب سے بھی انھیں خاص رغبت تھی۔ علاوہ ازیں کرکٹ ان کا پسندیدہ کھیل تھا جس کی وجہ سے نامور کرکٹرز کے ساتھ، عمران خان سمیت ان کے ذاتی تعلقات قائم تھے۔ شوکت خانم کینسر اسپتال کے قیام میں ان کی معاونت سے بھلا کون واقف نہیں۔ لیکن روحانیت کی جانب مائل ہونے کا گوشہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔
اللہ والوں سے انھیں قلبی لگاؤ تھا، جس کا اظہار انھوں نے مخفی رکھنا ہی مناسب سمجھا۔ شاید فلمی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ یہ قصہ پرانا بھی ہے اور طویل بھی ہے جس کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اسے آیندہ پر چھوڑتے ہیں۔ اس وقت اشارتاً محض اتنا ہی کہ جب ایک اللہ والے علاج معالجے کی غرض سے بمبئی تشریف لے گئے تو دین کی تڑپ نے یوسف خان کو ان کی قدم بوسی کے لیے جانے پر مجبور کیا اور غالباً یہی وہ ملاقات تھی جس نے اداکار دلیپ کمار کی زندگی کا رخ تبدیل کردیا۔
علامہ اقبال نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں