حکومت کا ایک مستحسن اقدام
دین اسلام وہ واحد دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ دین فطرت ہے لہٰذا انسانی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو اس کے دائرے سے باہر ہو۔ حیا اس کا جزو لاینفک ہے جس میں پردے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
نبی اکرمؐ کا فرمان ہے "حیا ایمان سے ہے"بدقسمتی سے مغرب کی نقالی اور اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی بے حیائی کا ایک قیامت خیز طوفان آیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہماری عورت ایک کموڈٹی بن گئی ہے، ہر جگہ عورت کی نمائش جاری ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں مینار پاکستان لاہورکا واقعہ تازہ ترین ہے۔ یہ اس ملک کا حال ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عریانی کو پھیلانے میں ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وطن ِعزیز میں تواتر کے ساتھ سنگین واقعات رونما ہو رہے ہیں اور اس سیلاب بلا کو روکنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پانی سر سے اونچا ہو جائے گا۔
مغرب کی روش کو اختیار کرنے کے نتیجے میں ہماری خواتین نے ہماری معاشرتی اقدار کو پامال کر دیا ہے اور انجام یہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے۔ شتربے مہار والی کیفیت ہے، دوپٹہ جو کبھی عورت کی پردہ پوشی کا محافظ ہوا کرتا تھا سر سے ڈھلکتے ڈھلکتے اب سِرے سے ہی غائب ہو چکا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بقول اکبر الہ آبادی:
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا
ایک جانب عورتیں اپنے لباس اور وضع قطع مرد بننے کی کوشش کر رہی ہیں تو دوسری جانب مرد عورتوں والی شکل وشباہت اور وضع قطع اختیار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں تک خواتین کی مردانہ لباس پہننے کی روش کا تعلق ہے تو اس کی اسلام میں سخت وعید ہے۔ گزشتہ اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے لیکن سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔ اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔
قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو، ان کی حرکات و سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازار سب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے، تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹہرے۔ آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیا کے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کو ثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوس نفس کی ماری پر کشش اورفریب زدہ سیکولرتہذیب میں داخل ہو گا وہ "ان الانسان لفی خسر" کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قوم لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاً ابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء علیہم السلام کا طریقہ حیات موجود ہے۔
اس وقت پوری دنیا پر کورونا کی صورت میں جو عذاب الٰہی نازل ہے وہ اسی غلط روی کا شاخسانہ ہے جس کے نتیجے میں ہر انسان کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے جو کسی وقت بھی ٹوٹ کر گر سکتی ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر آدمی شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہے اور معلوم نہیں کہ کب اور کس لمحہ لقمہ اجل بن جائے اور بقول نظیر اکبر آبادی:
قزاق اجل کا لوٹے ہے
دن رات بجا کر نقارہ
افسوس یہ کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس وبا کا کوئی شافی علاج بھی اب تک دریافت نہیں ہو سکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی واضح امکان نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کو سدھرنے کی کوئی فکرلاحق نہیں ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ عندیہ دیا تھا کہ شاید افغانستان میں طالبان کی حکومت برسر اقتدار آنے کے کچھ اثرات وطن عزیز پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے لیے حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کی پابندی سے متعلق تازہ ترین اقدامات کوئی حیرت کی بات نہیں۔
ان اقدامات کے مطابق تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں خواتین کے لیے لباس سے متعلق چند پابندیاں اور ہدایات جاری کی گئی ہیں جن کا بنیادی مقصد پردہ پوشی ہے تا کہ عریانی اور بے حیائی کی روک تھام کی جا سکے۔ ان کی تفصیلات پریس میں آچکی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کا اطلاق نجی تعلیمی اداروں کی خواتین پر بھی کیا جائے بلکہ رفتہ رفتہ انھیں پاکستانی معاشرے پر بھی لاگو کیا جائے۔