Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Shakeel Farooqi
  3. Banda e Momin Ki Azan

Banda e Momin Ki Azan

بندۂ مومن کی اذان

آج کل دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامو فوبیا کا چرچا اپنے نکتہ عروج پر ہے اور وہ آپس میں گٹھ جوڑ کرکے دین اسلام کی قوت سے خائف ہو کر ہر ممکنہ حربہ آزما رہے ہیں۔ بھارت اس میں پیش پیش ہے جہاں ہندو توا کے پرچارک اس میں پیش پیش ہیں جنھیں بھارت کی حکمراں جماعت بی۔ جے۔ پی کے غنڈوں کو حکومت وقت کی پشت پناہی اور بھرپور حمایت حاصل ہے۔

بھارت میں مسلمان ہونا ایک ناقابل معافی جرم ہے "اور ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات"۔ بی۔ جے۔ پی کے غنڈوں کو کھلی آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مسلمان کو گؤ کشی کا الزام لگا کر جہاں اور جب چاہیں زبردستی پکڑ کر زدوکوب کریں اور دندناتے ہوئے بلا خوف و خطر چلے جائیں۔ بے چارے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

عدالتیں موجود ہیں لیکن انصاف کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ بی۔ جے۔ پی کے غنڈے قانون و انصاف کی گرفت سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔ بے بس اور بے کس مسلمانوں کو مسلسل خوف و ہراس کے ماحول میں اپنی زندگی گزارنا پڑ رہی ہے۔ ان کی حالت یہ ہے کہ:

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

انھیں نہ نوکریاں ملتی ہیں نہ روزگار میسر ہے۔ عالم یہ ہے کہ بقول غالب:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

مسلم گھرانوں کی غالب اکثریت معاشی زبوں حالی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کسی بھی مسلمان کو غدار یا پاکستانی ایجنٹ قرار دینے کی روش عام ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سارا ملبہ ٹیم کے اکلوتے مسلمان کھلاڑی محمد شامی پر گرایا جا رہا ہے مگر دنیائے کرکٹ کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے:

ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم

بھارتی مسلمانوں کی نہ جانیں محفوظ ہیں اور نہ مال محفوظ ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ ان کی عبادت گاہیں تک بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے واقعہ سے بڑا سانحہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی حالت یہ ہے کہ طالبعلموں کو ہندو دھرم کا پاٹ پڑھایا جا رہا ہے اور ان کے نصاب میں اس طرح کی نظمیں بھی شامل ہیں کہ:

بندر مجھے بنا دے رام

چھوٹی پونچھ لگا دے رام

یہ بھی کیسی ستم ظریفی ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھلوانے والے غنڈوں کا سرغنہ بھارت ورش کا پردھان منتری بنا ہوا ہے۔ یہ وہی قصاب ہے جس کے داخلے پر سابق امریکی حکومت نے سخت پابندی عائد کر دی تھی اور آج وہی امریکا اس پر مائل بہ کرم ہے:

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے

اس وقت بھی جب کہ یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے بھارت کے صوبے آسام میں ایک کالے قانون کے بَل پر بے چارے مسلمانوں کو جو کئی پشتوں سے وہاں رہتے بستے ہیں بھارت کی شہریت سے محروم کرکے ناحق پریشان اور صوبہ بدر کیا جا رہا ہے۔

یہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو سوچی سمجھی اسکیم کے تحت آئینی تبدیلی کے ذریعے ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور مدت دراز سے ان کے حق خود ارادیت سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دنیا چپ چاپ یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔

اقوام متحدہ نے بھی کشمیر کے مسئلہ پر چپ سادھ رکھی ہے اور اس کی اس ناکامی کی وجہ سے یہ مسئلہ برسوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے مگر آزادی کے متوالوں کا یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا اور وہ دن دور نہیں کہ جب ظلم و ستم کی یہ سیاہ رات اپنے انجام کو پہنچے گی:

رات جتنی بھی سنگین ہو گی صبح

اتنی ہی رنگین ہوگی

دین اسلام میں وہ مقناطیسی کشش موجود ہے کہ جو اس کو سمجھ لیتا ہے وہ فوراً ایمان لاکر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔ دین اسلام کے پھیلنے کی یہی بنیادی وجہ ہے جس سے دیگر مذاہب کے ماننے والے بالخصوص یہود و ہنود اور عیسائی بری طرح خوف زدہ ہیں اور اسلاموفوبیا کا ہاہا کار مچا رہے ہیں۔

اسلام مخالف مہم چلا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود قبول اسلام کا زور روز بروز مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے اور سب سے زیادہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو لوگ اس دین کے کٹّر مخالف تھے وہ یک لخت ایمان لا رہے ہیں۔

برسوں پرانی بات ہے کہ ہمارے والد صاحب کے ایک دوست سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا جن کا تعلق ہندو راجپوت گھرانے سے تھا۔ ان کے والدین نے انھیں ہندو دھرم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اتر پردیش کے ایک مشہور شہر متھرا بھیج دیا تھا جو ہندو دھرم کے ماننے والوں کے مطابق ان کے اوتار کی جائے پیدائش اور رہائش کے حوالے سے ہندوؤں کے لیے انتہائی مقدس مقام تیرتھ استھان ہے۔

قصّہ مختصر اس جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک مسجد تھی جس سے آنے والی اذان فجر کی آوازوں نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ اس کی کشش سے مجبور ہو کر وہاں جا پہنچے اور آخرکار پیش امام صاحب کے ہاتھوں دین اسلام اور رام کرشن سے بدل کر عبدالرحمٰن ہوگئے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:

وہ سحَر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

اذان رب العالمین کے دربار میں حاضری کا بلاوا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرانے کا ذریعہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کل جہانوں کا حاکم اعلیٰ اور اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور تمام انسان اس کے بندے یعنی غلام اور تابع فرمان ہیں۔ دنیا کے کسی اور مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے ایسے طریقہ کا تصور بھی موجود نہیں ہے۔ اذان کی اثر آفرینی کا ایک اور واقعہ پیش خدمت ہے جس کا تعلق میرے ایک کلاس فیلو سے ہے جو نہ صرف ہندو تھا بلکہ کٹر برہمن تھا۔

ہوا یوں کہ دلّی میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور میرا دوست اپنے نرم و گرم بستر میں گہری نیند سویا ہوا تھا کہ معاً اسے ایک آواز سنائی دی اس آواز میں اتنی کشش تھی کہ وہ اپنے بستر سے باہر نکل کر اپنے فلیٹ کی چھت پر جا کھڑا ہوا اور اس پر اس وقت تک بے خودی طاری رہی جب تک وہ آواز بند نہ ہوئی۔

وہ جب اس کیفیت سے باہر آیا تو تب اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنے بستر سے باہر آکر اپنے فلیٹ کی چھت پر کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ روز حیرانی کی حالت میں مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا اور استفسار کیا کہ یہ سب کیا تھا۔ بات دراصل یہ تھی کہ یہ ایک مسجد سے آنے والی اذان فجر کی آواز تھی جو مسجد 1947 کے مسلم کش فسادات کے دوران ہندوؤں کے قبضہ میں چلی گئی تھی اور نئی نئی وا گزار ہوئی تھی۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi