1.  Home/
  2. Shabbir Arman/
  3. Cricket Ka Field Marshal

Cricket Ka Field Marshal

کرکٹ کا فیلڈ مارشل

خیبر پختونخوا کے گاؤں زروبی (صوابی) کے سلطان محمد (بابا جی) نے دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر مادر وطن کا دفاع کیا، وہ قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ لیاری (کراچی) میں جا بسے جہاں پر انھوں نے اپنے بیٹے محمد زریں کو دکان کھلوا دی اور خود بدین میں اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرنے لگے۔

محمد زریں لالہ کے آٹھ بچوں میں تیسرے نمبر پر محمد سجاد خان (مصنف) ہیں۔ لیاری کے سرکاری اسکول سے میٹرک کیا۔ بعد ازاں کراچی شپ یارڈ سے Ship Constructionمیں اپرنٹس شپ کی تکمیل کی۔ دوران ٹریننگ نہ صرف انھوں نے ایک پروجیکٹ کو مکمل کرکے نقد انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ حاصل کیا بلکہ اسی دوران گورنمنٹ عبداللہ ہارون کالج (شام) سے انٹرمیڈیٹ بھی کیا۔

اس کے بعد انھوں نے پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اردو آرٹس کالج (اردو یونیورسٹی) سے گریجویشن بھی مکمل کرلی۔ پچھلے 29سالوں سے وہ پاکستان نیوی ڈاکیارڈ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جہاں پر وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں Best Worker بھی رہے۔ محمد سجاد خان، جاوید میانداد کے بہت بڑے مداح ہی نہیں بلکہ عاشق ہیں جس کا اظہار ان کی تخلیق (جاوید میانداد… کرکٹ کا فیلڈ مارشل) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ مصنف کی پہلی کاوش ہے۔

یہ کتاب 376صفحات پر مشتمل ہے جس میں 6 باب ہیں ہر باب میں مختلف موضوعات ہیں جن کی تعداد 279 ہیں، اور ہر موضوع دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ اس کتاب کو فرید پبلشرز نے اردو بازار، کراچی سے شایع کیا ہے۔ کتاب کا رنگین سرورق دیدہ زیب ہے جس پر جاوید میانداد کی یادگار تصاویر ڈیزائن ہیں اور کتاب کے اندر بھی رنگین اور سادہ تصاویر مزید ہیں جس میں نوجوان جاوید میانداد، وسیم راجہ، ہارون رشید اور دیگر لیجنڈ کھلاڑیوں کے ساتھ ہیں۔

علاوہ ازیں ورلڈ کپ 1992ء کی کچھ تصویری جھلکیاں اور مصنف محمد سجاد خان جاوید میانداد کو اپنی کتاب اور ریکارڈ بک پیش کرتے ہوئے بھی شامل ہیں۔

مصنف نے اس کتاب کو اپنے والدین اور اپنی اہلیہ کے نام کرتے ہوئے بالترتیب لکھا ہے کہ جن کا تعاون اور دعائیں مجھے ہمیشہ حاصل رہی ہیں، جس کے ساتھ نے پہلے صاحب اولاد پھر صاحب کتاب بنا دیا۔ کتاب میں صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا پیغام بھی شامل ہے۔ کتاب کا پیش لفظ معروف صحافی اقبال خورشید نے لکھا ہے۔ پاکستان نے ورلڈ کپ 1992ء جیتا تو اس وقت جاوید میانداد کی کارکردگی کے بارے میں کتاب میں لکھا ہے کہ کرکٹ تجزیہ کاروں اور سابق کرکٹرز نے اپنے اپنے انداز میں تبصرے کیے۔

ممتاز اسپورٹس رائٹر تجزیہ کار سید محمد صوفی نے دنیائے کرکٹ کے تمام کھلاڑیوں کا موازنہ کرنے کے بعد جاوید میانداد کو کرکٹ کا فیلڈ مارشل قرار دیا، ان کا یہ دلچسپ آرٹیکل اخبار وطن کے خصوصی شمارہ جشن فتح نمبر 1992ء میں شایع ہوا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ " دنیائے کرکٹ میں بہت سے جرنیل پیدا ہوئے جن کی کارکردگی مثالی رہی، جن کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

بریڈ مین، ڈبلیو جی گریس، ویلی ہیمنڈ، گیری سوبرز، سنیل گواسکر، ویوین رچرڈ اور ظہیر عباس وغیرہ ایسے جرنیل ہیں جن کے کارنامے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ان کھلاڑیوں کے بیٹ بہت طاقتور تھے جو میچ کا نقشہ بدل دیتے تھے یہ جرنیل اپنی ٹیم کی قوت تھے، مرد میدان تھے، انھوں نے اپنی ٹیم کے لیے بہت رنز بنائے، سنچریاں بنائیں لیکن جاوید میانداد ان سے مختلف ہے۔ ان سے ایک لحاظ سے برتر ہے وہ نہ صرف خود رنز کرتا ہے بلکہ ٹیم کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں وہ میچ جیتنے کی پلاننگ کرتا ہے۔

میدان میں کھڑا ہوتا ہے تو نہ صرف رنز کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ کھیلنے والے بیسٹمینوں کو بھی رنز بنانے کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے جاوید میانداد دوسروں سے مختلف ہے وہ نہ صرف خود کھیلتا ہے بلکہ ٹیم کو بھی کھلاتا ہے، دوسرے اگر جرنیل ہیں تو میانداد فیلڈ مارشل، پاکستانی ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔ مصنف کے مطابق یہ کتاب تقریبا دس سال پہلے ہی لکھ چکا تھا مگر اپنی سستی، کاہلی اور کچھ سرکاری مصروفیات کے باعث اسے کتابی شکل نہیں دے سکا۔

مصنف کی یہ کاوش رہی ہے کہ پرنٹ میڈیا میں جاوید میاں داد کے متعلق جو کچھ بھی چھپتا وہ اسے محفوظ کرلیتے تھے، اس طرح 360صفحات پر مشتمل ایک ریکارڈ بک وجود میں آئی، جس میں جاوید میاں داد کے 1400سے زائد تصویریں، ان پر لکھے گئے 116مضامین، 40 انٹرویوز، ان کا تمام کیریئر ریکارڈ اور ان کے بارے میں 100سے زائد کرکٹرز کی آراء شامل تھی۔

2015ء میں مصنف نے جاوید میاں داد سے پہلی ملاقات کی اور انھیں اپنا مرتب کردہ ریکارڈ بک دکھائی، جس پر جاوید میاں داد نے اس پر اپنی رائے لکھی اور دستخط بھی کیے۔ اس ملاقات کے پانچ سال بعد یہ ریکارڈ بک کتابی صورت میں منظر عام پر لانے میں مصنف کامیاب ہوئے۔ اس کتاب میں ایک دلچسپ واقعے کا احوال بھی درج ہے، جو پاکستانی ٹیم کے دورہ ویسٹ انڈیز کے دوران پیش آیا تھا، جسے اقبال قاسم نے اپنی کتاب " اقبال قاسم اور کرکٹ " میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال قاسم، جاوید میاں داد اور ہارون رشید کھانا کھانے کسی ہوٹل میں گئے تھے وہاں انھوں نے بیرے سے مینو منگوایا اور یہ سوچ کر ماؤنٹین چکن کا آرڈر دیا کہ یہ مرغی کی کوئی خاص ڈش ہوگی بڑے مزے سے یہ ڈش کھائی گئی لیکن کھانے کے کچھ دیر بعد جب انھیں یہ پتہ چلا کہ یہ ڈش مرغی کی نہیں بلکہ پہاڑی مینڈک کی تھی تو ان لوگوں کا حال برا ہوگیا اور الٹیاں کرنے لگے۔

کتاب میں یہ واقعہ بڑے تفصیل کے ساتھ درج ہے جو طویل ہے اس لیے یہاں مختصر بیان کیا ہے۔ الغرض یہ کتاب نہ صرف جاوید میاں داد کے کرکٹ کیریئر کا مکمل احاطہ کرتی ہے بلکہ پاکستان کرکٹ کے سنہری دور کی تاریخ بھی ہے کہ کس طرح قومی کرکٹ ٹیم نے پستی سے بلندی کی طرف سفر شروع کیا۔ کرکٹ کی سپر پاور کو چیلنج کیا اور انھیں شکست دے کر کرکٹ کی دنیا کا حکمران بن گیا۔

کرکٹ کے شائقین اور نئی نسل کے لیے یہ کتاب انتہائی معلوماتی ہے۔ رمیز راجہ کے یہ الفاظ تاریخی ہیں کہ " پاکستان کی زیادہ تر فتوحات میں جاوید میاں داد کا ہاتھ ہے ان کی بیٹنگ مائنڈ کی کوئی حد نہیں، وہ واقعی ٹیم کے کمانڈر تھے۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz