بے نظیر بھٹو کی شہادت جسے فراموش کر دیا گیا
قاتل حیرت انگیز حد تک مطمئن تھا کم از کم ایک بار اس نے نشانہ باندھا اور پھر فائر نہ کیا۔ قاتل نے ٹارگٹ کے اور قریب جا کر پوزیشن سنبھالی تو خودکش بمبار بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ موقع واردات کی تصاویر میں ایک شخص جو قاتل کے قریب بہت سے لوگوں میں پہچانا جا سکتا ہے۔ اس سے تحقیقات ہونا چاہئیں۔
دختر مشرق بے نظیر بھٹو کی 2007ء میں شہادت کے بعد ان کی پارٹی کی اہم قیادت کی طرف سے بے نظیر کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے اس سانحے کو بھی دفنا دیا گیا۔ سانحے کے اہم شواہد جن میں بے نظیر کا قاتل۔ خودکش بمبار، خالد شہنشاہ، بیت اللہ محسود اور خدا جانے کتنے ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیے گئے۔ ان کی پارٹی نے شہادت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور بے نظیر کے نام کے سوا سب کچھ فراموش کر دیا گیا۔
بہت سے لکھنے والوں کی طرح راقم بھی بے نظیر بھٹو کو ذاتی طور پر جانتا تھا اور مجھے بے نظیر بھٹو کے ساتھ بہت سے قومی معاملات پر کام کرنے کا موقع ملا۔ بے نظیر بھٹو کی ملک و قوم کے لئے خدمات کا میں گواہ ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ان کو پاکستان کے لئے خدمات کی پاداش میں خاموش کر دیا گیا۔
کوئی تو بے نظیر کی شہادت کی وجوہات پر تحقیق کرے کہ آخر کیوں کروڑوں دلوں پر راج کرنے والی پرعزم لیڈر کو شہید کیا گیا۔ میں جب اس بات پر غور و فکر کرتا ہوں تو مجھے یہ سانحہ بھٹو لیگیسی سے غداری محسوس ہوتی ہے اور سچ ایک دن ضرور منظر عام پر آئے گا۔ فی الوقت بے نظیر کے ساتھ ان کے قتل کے ذمہ داروں کو بھی منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا ہے۔ صرف بے نظیر ہی نہیں قوم کو یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ بے نظیر کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناحؒ ان کی بہن فاطمہ جناح، لیاقت علی خاں، ذوالفقار علی بھٹو یہاں تک کہ ضیاء الحق اور مرتضی بھٹو کے قاتل کون ہیں؟ ان کے علاوہ بہت سے گم نام شہید بھی ہیں جو اس راہ میں جان سے گئے اور بھلا بھی دیے گئے۔
پاکستانی اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اقوام متحدہ کے تحقیقات کاروں کی تحقیقات میں بھی قوم کو دانستہ طور پر گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے تحقیق کار بھی بے نظیر کی شہادت کی تحقیقات کے لئے نہیں بلکہ حقائق کو مسخ کرنے کے لئے آئے تھے۔ اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ واقعہ کی جو ویڈیو چلائی اور الزامات لگائے تھے، ایک نجی چینل نے ان معاملات کو مزید الجھانے کے لئے ویڈیو کو بلئر اور ایڈیٹ کیا تھا اور یہ سب کچھ سانحے کی تحقیقات کے دائرے کو پاکستان سے باہر پھیلنے سے روکنے کے لئے کیا گیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاستی سکیورٹی ادارے بے نظیر کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے مگر اس سانحے کے بے نظیر کی ذاتی سکیورٹی پر مامور لوگ بھی ذمہ دار ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی ذاتی سکیورٹی کے سربراہ عدالتی تحقیقات کے دوران موقع واردات کے متعلق اپنے بیانات بدلتے رہے۔ جونہی قافلے کے لئے باہر نکلا، کئی سرکردہ لیڈر لوگوں کے ہجوم کو پیچھے دھکیل رہے تھے جو بے نظیر کی گاڑی کے گرد جمع ہو گئے تھے ان آخری لمحات میں بے نظیر کے سب سے وفادار خالد شہنشاہ بے نظیر کی گاڑی میں داخل ہوئے اور پھر گاڑی سے باہر نکل گئے ان کو بھی زرداری ہائوس کے باہر کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ جب بے نظیر کا جلسہ ختم ہوا اس وقت پولیس کا کوئی سینئر اہلکار موقع پر موجود نہ تھا حالانکہ وہ دو دفعہ کی وزیر اعظم تھیں، ایلیٹ فورس کو ہدایات تھیں کہ وہ بے نظیر کو اپنے حصار میں رکھے۔ بے نظیر کے گرد ہجوم نے ان کے بائیں مڑنے کا راستہ بند کر دیا تھا کوئی نہیں جانتا کہ ان کا مقصد بے نظیر کا راستہ روکنا تھا یا پھر یہ عام لوگوں کا ہجوم تھا، اسی بھیڑ میں قاتل اور خودکش بمبار بھی موجود تھے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پہلے اور آخری دو گھنٹوں کی نشریات کو بار باردیکھنے کی ضرورت ہے، ان میں راولپنڈی جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر بھی چشم دید گواہ ہیں جن کے مطابق بے نظیر بھٹو کی موت ایک یا دو گولیاں لگنے سے ہوئی۔ پھر فوراً ہی ہر چیز تبدیل کر دی گئی اور انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے ڈاکٹروں کو بے بس کر دیا گیا، یہاں تک کہ کوئی بھی بڑا لیڈر کہیں دکھائی نہ دیا۔ راولپنڈی جنرل ہسپتال کے اردگرد موبائل ٹاورز کے ذریعے ہونے والی موبائل فون پر گفتگو بھی بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا سکتی تھی، جس میں ہسپتال کے ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف اپنے دوستوں کو بے نظیر کی شہادت اور زخموں کے بارے میں بتا رہے تھے۔ اگلی ہی صبح موبائل فون کا ڈیٹا اور ہسپتال کے سٹاف کورنٹائن میں چلے گئے۔ جائے وقوعہ اور جلسہ کی تصاویر موجود ہیں، ان تصاویر میں بے نظیر کی گاڑی اور ہجوم میں موجود خودکش بمبار اور قاتل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تصویر میں بے نظیر کی گاڑی کے پاس قاتل اور خود کش بمبار کو سر ڈھانپے لوگوں میں کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک محافظ ان کی گاڑی کے پیچھے لٹکا ان کی طرف دیکھ بھی رہا ہے۔
دوسری تصویر میں قاتل بے نظیر سے صرف دو میٹر کے فاصلے پر آ جاتا ہے اور ہجوم میں ہی پسٹل سے پوزیشن سنبھالتا دیکھا جا سکتا ہے۔ قاتل ایک فائر کرتا ہے جو مس ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا اور تیسرا فائر نشانے سے لگتا ہے۔ اس ساری واردات میں پولیس بھی موجود ہوتی ہے مگر کچھ بھی نہیں کرتی۔ ایک شخص شلوار قمیض پہنے قاتل کی طرف لپکتا ہے اور اس کو قابو کر لیتا ہے، شلوار قمیض میں ملبوس شخص قاتل پر گن تان لیتا ہے اور بے نظیر بھٹو نیچے گر جاتی ہیں۔ موقع پر لی گئی تصاویر کے 8فریم ہیں، یہاں تک کہ دھماکہ ہو جاتا ہے۔ حادثے کے 20سکینڈ بعد بے نظیر کا ڈرائیور گاڑی کو باہر لے کر نکل جاتا ہے، یہ تصاویر بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں، ان سے جہاں بہت سے سوالوں کے جواب ملتے ہیں وہاں بہت سے نئے سوال بھی پیدا ہوتے ہیں۔