1971: قتل عام کا دوسرا رخ
49 برس پہلے 14 نومبر کی رات چٹاگانگ میں ایک پاکستانی سپیشل سروسز گروپ کے سنائپر نے اندھیرے میں ایک سایہ سا محسوس کیا۔ سپاہی کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے اس نے فائر کھول دیا۔ اندھیرے میں بھوت نما سائے غائب ہو گئے مگر ان میں سے ایک گولی لگنے سے وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پاکستانی سپاہی کو علم نہ تھا کہ اس نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے ٹرینڈ کئے گئے تبت کی گوریلا فورس تبتن لبریشن آرمی کے بریگیڈیئر دھون ڈپ گیاتوسنگ کو مار گرایا ہے۔ مانس پال نے 1971ء میں مارے جانے والے تبتن گوریلا کو گمنام سپاہی کہا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ 22ہی تھی جس نے مکتی باہنی کو تربیت فراہم کی۔ اس واقعہ سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت 1971ء سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اشوک رائنا، جو بھارتی انٹیلی جنس کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف ہیں، کے مطابق بھارتی مداخلت 1962-63ء میں شروع ہوئی تھی۔ 1971ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی زیرنگرانی یہ مداخلت خون ریزی، عصمت دری اور تشدد میں تبدیل ہو گئی۔ سقوط ڈھاکہ اور پاکستان کی علیحدگی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شاید بھلائی جا سکتی مگر ذوالفقار علی بھٹو کے حکم سے بننے والے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو نہ تو منظر عام پر آنے دیا گیا نہ ہی سفارشات پر عملدرآمد کیا گیا۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ اقتدار کی بھوکی اشرافیہ کے لیے رپورٹ شائع نہ کرنا ہی فائدہ مند تھا جنہوں نے اپنے ایجنڈے کے لیے قوم کو تقسیم کیا تھا۔ اس رپورٹ کا بدنما داغ یہ تھا کہ اس نے بہت سے سیاستدانوں، جرنیلوں اور آفیسروں کے گھنائونے چہروں سے نقاب اتار دیا تھا۔ اگر اس رپورٹ کو شائع کر کے اس کی سفارشات پر عمل کیا جاتا تو آج پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔
پاکستان میں جہاں سیاست افراد کے گرد گھومتی ہے وہاں ہماری اشرافیہ قوم کے ضمیر کو جگانے کا خطرہ کسی صورت مول نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس صورت حال میں نقصان پاکستان کے عوام کا ہوا جو گزشتہ پانچ دہائیوں سے لاوارث ہیں۔ 1971ء میں کچھ لوگ فوج کے ایکشن لینے سے پہلے مارے گئے کچھ ایکشن کے دوران مگر بنگالیوں کی کثیر تعداد بنگالی وطن پرستی کے نام پر ماری گئی۔ بہت سے آج بھی کراچی اور بنگلہ دیش میں زبوں حالی میں سڑ رہے ہیں جبکہ بنگالی قوم پرست تحسین و توصیف کے مستحق ٹھہرے۔ وہ لوگ جو پاکستان سے محبت کرتے تھے آج بھی ان پر عذاب مسلط ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے حالیہ دور میں ایک بار پھر حب وطنی کے معانی بدلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان گمنام شہیدوں کو کون شمار کرے گا جو فوجی ایکشن سے پہلے جان سے گئے اور جن کو سرنڈر کے بعد 1975ء تک قتل کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں نسل کشی میں بہت سے عناصر ملوث تھے۔ اس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو اس تنازع میں شامل نہ تھے۔ جن میں امریکہ، سوویت یونین اور بھارت شامل ہیں، ان ممالک نے پس پردہ پاکستان کی فوج کو بدنام کرنے کے لیے اپنا اپنا حصہ بھرپور اندز میں ڈالا۔ بھارت نے تو 1971ء میں تمام ریکارڈ ہی توڑ دیئے۔ اس نسل کشی کے بارے میں حقائق سے اس وقت تک پردہ نہیں اٹھا سکتا جب تک بنگلہ دیش کی اجتماعی قبروں میں دفن افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ نہیں ہوتے۔ اب بھی مغربی بنگال کا ایک صحافی بنگلہ دیش کے قتل عام کا پراپیگنڈہ کر رہا ہے اگرچہ اس کی رپورٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی تحقیق میں جو پہلو نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن سے پہلے کے حالات کا ذکر گول کر دیا ہے۔ پھر بھی اپنی تحقیق میں وہ جون 1971ء کے بارے میں لکھتے ہیں:پہلے غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع ہوا جو بنگالیوں سے نفرت کا ابال تھا۔ 25 مارچ کی شام کو بنگالی ملٹری اور پیرا ملٹری ٹروپس نے حکم ماننے سے انکار کر کے غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ ہزاروں بدقسمت خاندان جن کا تعلق بہار سے تھا کو قتل کردیا گیا جنہوں نے 1947ء کی تقسیم کے بعد پاکستان کی محبت میں یہاں کو ترجیح دی تھی پہلے مرحلے میں بہاریوں کو قتل کرنا شروع کیا گیا ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ خاص قسم کے تیار کئے گئے چاقووں سے خواتین کی چھاتیوں کو کاٹا گیا۔ اس قتل عام میں بچوں کو بھی نہ بخشا گیا وہ خوش قسمت تھے جن کو ان کے والدین کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ المیہ یہ کہ مرنے والوں میں مغربی پاکستان کے کئی افسر اور ان کے اہل خانہ بھی شامل تھے جن میں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں تھیں جن کی آبروریزی کے بعد قتل کیا گیاتھا۔
میرے بڑے بھائی بھی مشرقی پاکستان میں ملازمت کرتے تھے، انہوں نے اس تباہی کو دیکھا۔ ان کی وطن واپسی پر میری ماں نے سب سے پہلے یہی پوچھا تھا کہ "آیا تمہارے ہاتھ تو صاف ہیں " میرے بھائی کی طرح اور لوگ بھی ہونگے جو سمجھتے ہیں کہ یقینی طور پر کچھ سویلین بھی ہلاک ہوئے، تاہم یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے سیکٹر میں بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کیا گیا۔ مارچ 1971ء میں پاک فوج کے سنگین بردارفوجیوں کی تعداد 12ہزار تھی اور سرنڈر کے وقت یہ تعداد 30ہزار تھی۔ ان فوجیوں کو کئی قسم کی دھمکیوں کا سامنا تھا ان کو چھوٹے چھوٹے جھتوں میں پھیلایا گیا تھا۔ سب سے زیادہ 4600پاک انڈیا سرحد پر تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا لڑاکا فوجیوں کی اتنی کم تعداد ہزاروں لاکھوں لوگوں کو قتل کر دے اور انہیں اجتماعی قبروں میں بھی دفن کر دے، یا بڑے پیمانے پر آبروریزی کرے۔ حتیٰ کہ مدر ٹریسا کے مراکز میں غیر قانونی بچوں کے ریکارڈ میں آبروریزی کے نتیجہ میں سب سے زیادہ بچے 16دسمبر 1971ء کے بعد پیدا ہوئے۔ اشوک رائنا اپنی کتاب "انسائیڈرا:دی سٹوری آف انڈیا سیکرٹ سروس" میں واضح طور چٹاگانگ میں مارچ 1971ء میں ہونے والے واقعہ کا حوالہ دیتے ہیں "جب چٹا گانگ میں فوج اتری تو را کے کارپرداز اس پیغام پر عملدرآمد کے لئے بڑے مضطرب رہتے تھے جو انہیں وصول ہوتا تھا۔ پیغام یہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھارتی علاقے میں سوگز کے اندر اپنی جلا وطن حکومت قائم کریں ۔ وہ اپنی کتاب میں اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت نے مکتی باہنی کے دو ہزار کارکنوں کو 6 ہفتے کیمپوں میں ٹریننگ دی جاتی تھی یہاں تک کہ جولائی 1971ء میں انہیں سرحدوں پر پاکستان آرمی کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو قتل کرنے کا طریقہ کار واضح طور تبتی تھا۔ سوراب کمار"ہسٹری فار گاٹن آرفنز" (تاریخ کے فراموش یتیم) میں لکھتے ہیں کہ 16دسمبر 1971ء کے بعد عوامی لیگ کے 5ہزار سے زائد مسلح گوریلوں نے جیو بنگلہ کے نعرے لگاتے ہوئے سنگینوں کے ساتھ پاکستا ن نوازلوگوں کو قتل کیا۔ ایک بنگالی تجزیہ نگار تجمل حسین لکھتے ہیں کہ را کھی باہنی نے 15اگست 1975ء تک وفاق پسند پاکستانیوں اور غیر بنگالیوں کا قتل جاری رکھا۔ وہ پبنہ کے ایک قصبے سراج گنج کی خونیں کہانی بیان کرتے ہیں کہ بہت سے پاکستان نواز لوگوں کو جیل میں پھینک کر آگ لگا دی گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کی قتل و غارت مجیب الرحمن کی پرائیویٹ آرمی کی مدد سے کی جاتی تھی جس کی قیادت راکھی باہنی کرتی تھی۔
شرمیلا بوس نے اپنی کتاب "ڈیڈ ریکوننگ، میموریز آف دی 1971ء بنگلہ دیش وار" میں ان اندوہناک واقعات کی جھلکیاں دکھائی ہیں، جو 16دسمبر 1971ء سے پہلے اور بعد میں مشرقی پاکستان میں پاکستان نواز لوگوں پر گزرے۔ اب جبکہ وہ بھارت اور بنگلہ دیش کے اس گٹھ جوڑکو سامنے لے آئی ہیں تو حکومت پاکستان کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیے۔