زندگی اور موت کے فاصلے پر پڑی دو تصویریں
دو تصویریں ساتھ ساتھ تھیں اور ایک ہی نظر میں "نظر" سے گزرتیں تھیں۔ مگر دونوں میں زندگی اور موت کا فاصلہ تھا۔ پہلی تصویر میں اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے بہار کا کوئی اولین نقش ہو۔ حسین پھولوں کے سارے رنگ اس کے معصوم چہرے کے خدوخال میں دکھائی دیتے۔ وہ حقیقت میں آسمانوں سے اتری کوئی ننھی پری لگ رہی تھی۔ جس کے فرشتوں جیسے پاکیزہ وجود کی حفاظت اور رکھوالی کا ظرف زمین والوں کو نہ تھا پہلی تصویر میں اس کا روشنی جیسا چہرہ زندگی کے سارے امکانات سے بھرا ہوا تھا۔
آنکھوں میں خوابوں کے جگنو اٹکھیلیاں کرتے اور رخساروں پر معصومیت کی تتلیاں اڑتی پھرتی ہیں اس کی عمر بھی ایسی تھی کہ اس کے لئے جنگو، اور تتلیوں کی تشبہہ ہی تو جچتی ہے۔
سات، آٹھ برس کی عمر۔ بچپن کی دہلیز پر بے فکری کے دن اور اس بے فکری سے اس کا دمکتا ہوا چہرہ۔ !
دوسری تصویر بھی اس کی تھی مگر اس کی لگتی ہی نہ تھی۔ میں نے کہا نا کہ دونوں تصویروں میں زندگی اور موت کا فاصلہ تھا۔ اس تصویر میں اس کا پریوں جیسا، حسین چہرہ کفن کی سفید پٹی میں جکڑا ہوا تھا۔ زندگی کے سارے امکانات اوندھے پڑے۔ رخساروں کی تتلیاں اور آنکھوں کے جگنو مر چکے تھے بہار کے اولین نقش کو کسی ہوس زدہ کی وحشت اور درندگی کچل کے گزر گئی تھی۔
زندگی اور موت کے فاصلے پر ابھری ہوئی یہ دو تصویریں، نوشہرہ کی سات سالہ نور کی تھیں۔ اور سوشل میڈیا کے ہنگام میں، تصویروں اور ویڈیوز کے لامتناہی قطار میں، ہر اہل درد کے دل کو تڑپاتیں اور ان کے احساس میں کہرام بپا کرتی تھیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی "سمارٹ اور فاسٹ" زندگی میں یہ درد اور یہ کہرام بھی بس مختصر وقت کے لئے، سوشل میڈیا کے صارفین کے دل کو بوجھل کرتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے کوئی اور فنی ویڈیو (Funny Video)یا پھڑکتی ہوئی سیاسی پوسٹ۔ کوئی ٹک ٹاک سکینڈل دل کی اس بوجھل فضا کو تحلیل کر دیتا ہے۔ !
اے حسین ننھی پری۔ ہم بطور معاشرہ تو تمہارے مجرم ہیں۔ تم سے شرمندہ ہیں کہ ہمیں اب ایسی خبروں کی عادت ہوتی جاتی ہے۔ تم پر قیامت گزر گئی لیکن ہمارے سماج کے اجتماعی احساس میں کوئی ایسا انقلاب نہیں آیا۔ حکومتوں کے ایوانوں میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی۔ ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم کے موضوعات سیاست کی۔
سنسنی خیزی اور ریٹنگ کے خبط سے باہر نہیں آتے۔ تجزیوں تبصروں میں کوئی تمہاری بات نہیں کرتا۔ سماج میں یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر والدین اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کی حفاظت میں ناکام ہو چکے ہیں تو وہ بچے پیدا کرنے بند کیوں نہیں کرتے۔؟؟ میری پیاری ننھی پری۔ سچ تو ہے اور یہ انتہائی تلخ سچ ہے کہ تمہاری حفاظت کی اہم ترین، بنیادی اور اولین ذمہ داری تمہارے باپ اور تمہاری ماں پر عائد ہوتی تھی۔ معاشرہ سماج، قاری، استاد، رشتہ داروں، مامے، چاچے، کزنز، ان سب پر تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں تھی۔ اس لئے کہ یہ معاشرہ اخلاقی زوال کی پستیوں کو چُھو رہا ہے۔ یہاں قرآن کی تعلیم دینے والوں کے روپ میں جنسی ہوس سے بھرے ہوئے انسان نما وحشی ہیں۔ تو پھر باقی سماج، کی کیا ہی بات کریں۔ چاچے، ماموئوں، کزنوں، قریبی رشتہ داروں پر اعتبار کر کے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو ان کی حفاظت میں دینے والے والدین سب سے بڑے مجرم ہیں۔؟ آئے روز اخبار ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں، ابھی تک لوگوں کی آنکھیں کیوں نہیں کھلیں۔
زینب کے کیس میں یہی ہوا تھا۔ وہ سردیوں شام جب اندھیرا چھا چکا ہوتا ہے سپارہ اٹھائے اکیلی گھر سے نکلی تھی۔ پہلے مجرم وہی ہیں جنہوں نے ایک معصوم بچی کو شام کی تاریکی میں گھر سے اکیلے جانے دیا۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ زینب ایک وحشی درندے کے ہاتھ اس آسانی سے کیوں لگی اس کی وجہ یہ ہے ک اس کے گرد حفاظت کا پہلا اور بنیادی دائرہ موجود ہی نہیں تھا۔ بچے کے گرد حفاظت کا پہلا اور بنیادی حصار اس کے والدین بناتے ہیں۔ جہاں والدین سماج پر اعتبار کر کے اس حصار کو کمزور کرتے ہیں وہیں آس پاس کے قریبی لوگوں میں سے ہی کوئی ہوس زدہ بھیڑیا اس صورت حال سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔
نوشہرہ کی اس ننھی پری کے ساتھ جو بربریت کی گئی۔ اس میں بھی یہی ہوا۔ ایک سات آٹھ سالہ بچی اکیلی گھر سے سپارہ پڑھنے نکلی۔ کہاں تھی اس ماں اور اس کا باپ کیوں انہوں نے بچی کو انسانوں کے اس جنگل میں اکیلے جانے دیا۔؟ ماں سونے کی بالیاں برآمدے کے تخت پوش نہیں رکھے گی کہ کوئی اٹھا نہ لے۔
باپ پانچ ہزار کا نوٹ بٹوے میں ڈال کر جیب میں رکھے گا۔ بٹوہ اپنی حفاظت میں کہ کہیں کوئی چوری نہ کرے اور اپنی پریوں جیسی انمول، بچی کو گھر سے اکیلے سپارہ پڑھنے بھیج دیا۔ گھر سے باہر شہر نہیں بستا۔ انسانوں کا ایک جنگل شروع ہو جاتا ہے۔ جنسی وحشت سے بھرے ہوئے انسان نما بھیڑیے ایسے آسان شکار کی تلاش میں قدم قدم پر موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں نوشہرہ کی نور ہو یا قصور کی زینب، گھر سے جنگل کی طرف جائے گی تو کیسے سلامت واپس آئے گی۔ !والدین کو جگانے، سمجھانے اور انہیں تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سماج کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔