یہ موضوع اہم کیوں نہیں؟؟
ہماری جنت مکانی امی جان کی عادت تھی کہ وہ بچوں کی پسند ناپسند کی پروا کیے بغیر موسم کی تازہ سبزی پکایا کرتی اور پھر اگر ہم ناک منہ بھی چڑھاتے تو اس کی قطعاً پروا نہ کرتیں۔
کھانا دیتے ہوئے وہ متعلقہ سبزی کے فضائل پر روشنی ڈالتی جاتیں اور اس سبزی کی اتنی تعریفیں بیان کرتیں کہ چارو ناچار ہمیں کھانا ہی پڑتا۔ شلجم خون بناتے ہیں۔ کدو ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی پسندیدہ سبزی ہے۔ کریلے خون صاف کرتے ہیں۔ کالے چنے تو صحت کے لئے اتنے اچھے کہ ان میں ہارس پاور پائی جاتی ہے۔ ٹینڈے معدے کی گرمی نکالتے ہیں۔ اب امی جان یہ فضائل بیان کرتیں، تو جس بھائی کو کوئی سبزی ناپسند بھی ہوتی تو چپ چاپ کھاتا جاتا، بھائی جان کو بینگن ناپسند تھے مگر پھر بھی بینگن کا بھرتا اور سالن دونوں ضرور بنتے۔ زیادہ لاڈلا ہونے اور امی جان کی خصوصی توجہ اور شفقت پانے کے باوجود بھائی جان کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی کہ بینگنوں کی جگہ انڈے کا آملیٹ بنالیں یا شامی کباب کھالیں انہیں بینگن ہی کھانا پڑتے۔ ہفتہ وار چھٹی کے دن گندم کا دلیہ ضرور بنتا۔ جو گھر کی صاف کی گندم کو چکی پر دیکر خود بنوایا گیا ہوتا۔ مجھے دلیہ بالکل پسند نہیں تھا مگر یاد نہیں کہ کسی روز بھی دلیے کے علاوہ اپنی پسند کا کچھ کھایا ہو۔ دلیے کے تو اتنے فضائل تھے کہ بس کھانا ہی پڑتا۔
اب دنیا کے بڑے بڑے غذائی ماہر کہتے ہیں کہ ناشتے میں دلیے کا استعمال شوگر بلڈپریشر اور کینسر جیسی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ کیونکہ اس میں بھر پور فائبر ہوتا ہے۔ اب بڑے بڑے سٹوروں پر اور غیر ملکی برانڈ کے دلیے کے ڈبے عام دستیاب ہیں اور صحت کی قدر کرنے والوں کے ہاں ان کی بہت مانگ ہے۔
چھٹی کے علاوہ روزانہ ناشتے میں دہی کھانا ہم سب پر لازم تھا، انڈا تو سب شوق سے کھاتے مگر دہی پسند نہیں تھا مگر امی جان نے بھی اس پر کمپرومائز نہیں کرنے دیا۔ سردیوں میں مچھلی کا استعمال بہت باقاعدگی سے ہوتا، ساگ اور مکئی کی روٹی کھانا تو جیسے ایک فرض تھا۔ گھر میں صبح سویرے اٹھنے کا ماحول تھا۔ دیگر تک سونے کی عادت کسی کو بھی نہیں، یہاں تک کہ چھٹی کے روز بھی معمول کے مطابق بیدار ہوتے۔ ہاں بھائی جان کبھی کبھار دیر تک سوتے تو ابو جان ان کے کمرے کا پنکھا بند کر دیتے۔ یا پھر سردیوں میں انہیں جگانے کے لئے رضائی اتار دیتے۔ ہر دو طرح کا ردعمل موسمی صورت حال پر منحصر تھا۔ کسی بچے کو اجازت نہیں تھی کہ وہ بغیر ناشتہ کئے سکول چلا جائے اسی توجہ کے ساتھ دوپہر کے لنچ باکس تیار ہوتے اور ہمیں ساتھ دیے جاتے کبھی لنچ باکس بھول گئے تو سکول پہنچائے جاتے۔
دن کا آغاز ایک بہترین ناشتے سے کرنے کی بات تو ایسی دماغ میں بیٹھی کہ پڑھائی کے سلسلے میں جب ہوسٹل لائف گزاری تو بھی ہر صورت ناشتہ ضرور کرتی۔ صبح سویرے کلاس لینے کے لئے کیمپس پہنچنے کی بھاگ دوڑ میں بھی ناشتہ ضرور کر لیتی۔ آج کل آپ طالب علموں کو اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دیکھیں تو ان میں ناشتہ چھوڑنے کا رجحان بہت زیادہ ہے، ایک ہی بہانہ صبح کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا۔ دنیا بھر کے غذائی ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ ناشتہ پورے دن کا سب سے اہم کھانا ہے۔ انگریزی کا لفظ بریک فاسٹ بھی یہی بتاتا ہے کہ پوری رات کے بعد، روزے یعنی فاقے کے بعد ناشتہ ضروری ہے۔
مگر آج کل بیشتر نوجوان نائٹ پیزا اور برگر کی ہوم ڈیلیوری کھا کے صبح ناشتے کے بغیر اپنے کالج یونیورسٹی جانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ صبح سویرے صحت بخش ناشتہ جسم میں بلڈ شوگر کو متوازن رکھتا ہے۔ جسم کے میٹابولزم کو چست کر کے اسے آمادہ رکھتا ہے کہ وہ تمام دن اپنا کام بہتر طریقے سے کرے۔ ایک صحت بخش ناشتہ جسم میں موٹاپے کے رجحان کو بھی کم کرتاہے۔
ہمارے ہاں تیزی سے بدلتے ہوئے لائف سٹائل نے ناشتے کے اوقات بھی بدل دیے ہیں، راتوں کو جاگنا یا دیر سے سو کر صبح دیر سے اٹھنے والے ہم لوگ اپنے جسم کے قدرتی گھڑیال کے مخالف چل کر خود اپنا نقصان کر رہے ہیں، راتوں کو جاگ جاگ کر اپنا مدافعتی نظام کمزور کرنا کئی طرح کی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ مارکیٹنگ اور خوفناک کمرشلائزیشن کے اس دور میں ہم ہر قیمتی چیز پر سمجھوتہ کر چکے ہیں، ہماری صحت ان میں سے ایک ہے ٹی وی چینلوں پر چلنے والے اشتہارات کی چکاچوند ہمارے نوجوانوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے وہ ان لہروں کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔
سگریٹ کے اشتہارات پر ٹی وی چینلوں پر پابندی لگانا بہت خوش آئند ہے، اس کے ساتھ ساتھ صحت کو تباہ کرنے والی اور بہت سی مصنوعات ایسی ہیں، جن کے اشتہارات پر بھی پابندی لگانی چاہیے، انرجی ڈرنکس ان میں ایک ہیں۔ ان اشتہارات میں دکھایا جاتا ہے کہ انرجی ڈرنکس پینے والے نوجوان پرکشش طاقتور چاہے جانے کے قابل۔ ذہانت اور حسن کا مرقع ہوتے ہیں، ایسی اشتہاری سازی کے بعد صحت کے لئے خطرناک مشروب دھڑا دھڑ نوجوان میں بکنے لگتا ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر کا کہنا یہ ہے کہ انرجی ڈرنکس پینے والے نوجوانوں میں انزائٹی تھکن دل کی دھڑکن کا تیز ہونا یہاں تک کہ ہارٹ اٹیک جیسی بیماریاں بھی دیکھنے کو آ رہی ہیں، توانائی کو مصنوعی طریقے سے بڑھانے والے یہ خطرناک مشروب نوجوانوں کو ہائی بلڈ پریشر اور دل کی مریض بنا رہے ہیں، پھر ان کے اشتہارات پر پابندی کیوں نہیں، اگر پابندی نہیں لگائی جا سکتی تو نوجوانوں میں غذائی شعور بیدار کرنے کے لئے تو کام ہونا چاہیے۔
امریکی سرکار کا شعبہ صحت ہر سال امریکی شہریوں کی صحت بہتر بنانے کے لئے فوڈ گائیڈ لائن جاری کرتا ہے، اگرچہ امریکہ دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سے فاسٹ فوڈ کلچر پوری دنیا میں پھیلا۔ یہاں لوگ سب سے زیادہ فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں مگر شعبہ صحت تو اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ 2020ء کی امریکی فوڈ گائیڈ لائن یہ ہے کہ ہر روز سبزیاں اور پھل اپنی غذا میں شامل کرنا چاہیں، زیادہ بھوسے والی فائبر غذائیں کھائیں دالیں، انڈے اور مچھلی غذا میں شامل کریں وغیرہ وغیرہ۔
اصل خرابی یہ ہے کہ یہ غذائیں کھائیں گائیڈ لائن کے ساتھ رہنمائی بھی تو ہو کہ کون سی غذائیں نہ کھائیں، صحت کی حفاظت کرنے والی تمام غذائیں سادہ ہیں اور نان پراسیسڈ ہیں۔ یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہر سطح پر ہے خصوصاً نوجوانوں میں جو ٹینڈوں اور کریلوں کو آئوٹ ڈیٹڈ چیز سمجھتے ہیں اور ہزاروں روپیہ فاسٹ فوڈ پر لگا کر اپنی صحت سے کھلواڑ کرنے کو اپنا لائف سٹائل قرار دیتے ہیں۔
ہمارے شعور کا عالم یہ ہے کہ ہمارے مباحث اور تبصروں کا ننانوے فیصد محور سیاسی حالات ہیں، غذا پر ہماری صحت اور زندگی کی کوالٹی منحصر ہے، پھر بھی یہ موضوع اہم کیوں نہیں؟ آپ بھی سوچیے میں بھی سوچتی ہوں۔