شہاب نامہ :لازوال خودنوشت
24 جولائی 2021کو ممتاز بیوروکریٹ اور بے مثل ادیب قدرت اللہ شہاب کو دنیا سے گئے پینتیس برس ہوگئے۔ ان گزرے تمام برسوں میں وہ کسی بھی زندہ ادیب سے زیادہ پڑھے گئے اور سراہے گئے۔
ان کی خود نوشت شہاب نامہ کو اردو ادب میں ایک شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ اگر آپ نے شہاب نامہ پڑھا نہیں تو اس کے بارے میں سنا ضرور ہوگا۔ ویسے میں تو سمجھتی ہوں کہ جس کسی کوحرف ولفظ سے اتنی وابستگی ہے کہ لکھے ہوئے کالے حروف اس کے روح اور دل میں پڑی دراڑوں کو اپنے ملائم اور روشن وجود سے بھر دیتے ہیں، اس نے اپنی زندگی میں شہاب نامہ ضرور پڑھا ہوگا۔ شہاب نامہ کتاب نہیں ہے بلکہ ان گھروں کی تہذیب کا حصہ ہے جہاں کتاب سے محبت کو ایک قیمتی وراثت کی طرح انگلی نسلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ کتاب سے سجے ہوئے اور علم سے روشن ایسے گھروں میں شہاب نامہ ضرور ہوتا ہے۔ شہاب نامہ سے ہمارا تعلق بچپن کا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جیسے بچے میٹرک تک پہنچتے تو جن گھروں میں کتابیں پڑھنے پڑھانے کا رواج ہوتا وہاں پر بچے میٹرک میں شہاب نامہ سے ضرور متعارف ہو جاتے تھے۔ کالج کے طالب علم کے لئے ضروری تھا کہ اس نے شہاب نامہ پڑھ لیا ہو۔ میرا شہاب نامہ سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں میٹرک میں تھی۔ ہمارے بڑے بھائی جان کالجیٹ ہو چکے تھے اور ہمارے بھائی جان کا کالج میں جانا بھی ایک واقعہ تھا۔ جیسے ہی وہ کالج میں گئے انہوں نے کالج لائبریری سے مختلف کتابیں گھر میں لانا شروع کر دیں۔ شاید شہاب نامہ بھی وہ کالج کی لائبریری سے لائے تھے۔ ہم بڑے تین بہن بھائیوں نے اردو ادب کی اس لازوال خود نوشت کو اسی وقت اپنی سمجھ اور دلچسپی کے مطابق چیدہ چیدہ پڑھ لیا تھا۔
میری خلد نشیں والدہ اور والد صاحب نے بھی قدرت اللہ شہاب کی شاہکار خود نوشت بڑے شوق سے پڑھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے مال روڈ پر واقع کتابوں کی دکان سے کچھ کتابیں خریدیں تو وہاں شہاب نامہ دیکھ کر اسے بھی یہ سوچ کر خرید لیا کہ میری لائبریری میں شہاب نامہ ضرور ہونا چاہیے۔ زمانہ طالبعلمی کے بعد عملی زندگی کے بہت سے مراحل اور تجربات سے گزرنے کے بعد اب جب دوبارہ شہاب نامہ پڑھا تو لگا کے پہلی بار پڑھ رہی ہوں۔ ادب کی لازوال کتابوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ انہیں عمر کے مختلف حصوں میں اپنے تجربات و مشاہدات کے مختلف آئینوں میں رکھ کر پڑھیں تو ہر بار آپ کے احساس کے طاق پر شعور کے نئے دیے جل اٹھیں گے۔ اپنے گھر کی روایت کے مطابق میں نے اپنے دس سالہ بیٹے کو بھی شہاب نامہ سے متعارف کروایا اگرچہ ابھی وہ اسے سمجھنے کی عمر سے بہت پیچھے ہے۔ لیکن میرا نظریہ یہ ہے جو چیزیں، کتابیں، نام کچی عمر میں بچوں کے شعور سے گزر جاتے ہیں وہ بھلے انہیں سمجھ نہ آئیں مگر یہ سب ان کے لاشعور کاحصہ بن جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے بیٹے کو اردو پڑھانا شروع کی۔ انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کی اردو بہت کمزور رہ جاتی ہے۔ ہمارے والدین بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ انگریزی میڈیم میں پڑھتا ہے اس لئے اردو کمزور ہے۔ سو میں کوشش کرتی ہوں کہ دانیال اردو کے ساتھ جڑا رہے۔ اسے اردو کی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ پتہ ہو، اسے اردو کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ اسی کوشش میں میں نے اسے نصاب کی غیر دلچسپ کتابوں سے سے ہٹ کر اردو ادب کے بڑے لکھاریوں سے متعارف کروانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس پر کبھی پھر تفصیل سے لکھوں گی۔ سردست تو بتانا یہ مقصود تھا کہ پچھلے دنوں میں نے اس کو شہاب نامہ سے متعارف کروایا، قدرت اللہ شہاب صاحب کے بچپن کے دلچسپ واقعات پر مشتمل باب سے ایک دو پیرا گراف پڑھے۔ شہاب نامہ کے دوسر ے باب جموں میں پلیگ میں عالمی وبا کاتذکرہ ہے۔ لکھتے ہیں کہ ان دنوں جب شہر میں ہر روز دس دس پندرہ پندرہ لوگ طاعون سے مر جاتے تھے گلی کوچوں میں چاروں طرف چھایا ہوا تھا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ملنا جلنا ترک کر دیا تھا، سڑک پر لوگ ایک دوسرے سے دامن بچا بچا کر چلتے تھے۔ شہر کا ہر مکان دوسروں سے کٹ کر الگ سے قلعہ بنا ہوا تھا جس میں پھٹی پھٹی آنکھوں والے محصور لوگ چپ چاپ اپنی اپنی گلٹی کا انتظار کر رہے تھے۔ پلیگ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مریض تو اکثر موت کی سزا پاتا تھا، باقی گھروالے مفرور مجرموں کی طرح منہ چھپائے پھرتے تھے۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا رواج بھی بہت کم ہو گیا تھا، لوگ دور ہی دور سے سلام دعا کرکے رسم مروت پوری کر لیتے تھے۔
میں نے کئی بار یہ باب پڑھا ہوگا لیکن اس بار جموں میں پلیگ کا باب پڑھ کر مجھے وبا کے زرد موسم میں موجود بیماری خوف اور موت کے سہم کے خوفناک تجربے میں شراکت کا احساس ہوا۔ کیونکہ کم و بیش دو سال سے ہم بھی پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وبا کی لپیٹ میں ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں، ہاتھ نہیں ملاتے، دور سے رسم مروت پوری کر لیتے ہیں۔
شہاب نامہ پر ایک کالم میں کیا لکھا جاسکتا ہے۔ واقعات اورمشاہدات کا ایک رنگارنگ پینوراما ہے جو قاری کے سامنے کھل جا تا ہے۔ قدرت اللہ شہاب ایک ہی زندگی میں کتنی متنوع زندگیاں جئیے۔ کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے بیورو کریٹ۔ گورنر جنرل غلام محمد، صدر سکندر مرزا اور صدر ایوب کے ساتھ ان کے پرنسپل سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا، یونیسکو میں پاکستان کی نمائندگی کی، ہالینڈ میں سفیر رہے۔ اور پھر اندرون ذات بھی سفر جاری رہا یہاں تک تصوف کی منزلیں طے کرتے رہے اور بیوروکریٹ سے ایک صوفی کے روپ میں ڈھل گئے۔ کالم کی جگہ ختم ہوئی کسی اور نشست میں قدرت اللہ شہاب کی زندگی کے اس پہلو پر اورجو مشاہدات انہوں نے کیے اس پر لکھوں گی۔