مہنگائی سے سہما ہوا غریب شہر
جی چاہتا ہے کہ اپنے کالم میں ہر روز کسی غریب شہر کی کہانی لکھوں، کسی سفید پوش کی حالات کے برزخ میں گزرتی زندگی کی تصویر لفظوں سے بنائوں، یا پھر پاکستان کے عام آدمی کا قصہ لکھوں، جو پاکستان کے خاص آدمیوں کے کارناموں اور کرتوتوں سے باخبر رہنا ہے۔ خبریں سنتا ہے، اخبار پڑھتا ہے، کالموں اور تجزیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ اربوں کھربوں کی جائیدادوں کا احوال پڑھتا ہے، دور دویسوں میں لگژری فلیٹوں اور ان سے جڑی سفید کالر جرائم کی داستانیں بڑے شوق سے پڑھتا ہے۔ پانامہ کی ٹیکس ہیون میں چھپا کر محفوظ رکھے ہوئے دولت کے انبار کی سنسنی خیز داستانیں سنتا ہے۔ مگر اس کے اپنے حالات یہ ہیں کہ روزبروز دگرگوں ہوتے جاتے ہیں۔ اس کی زندگی، مہنگائی کی ڈھلوان پر پڑے ایک لڑکھتے ہوئے پتھر کی مانند ہے۔
مہنگائی کا سیلاب اپنی تمام تر حدیں اور حفاظتی پشتے توڑ کر سونامی کی صورت بپھرا ہوا زندگی کی بستیوں کو پامال کرتا ہے۔ اس سونامی کے سامنے متوسط پاکستانیوں کی زندگی خطرے میں ہے تو سوچیں کہ غریب کا حال کیا ہو گا۔ جو دن بھر جسمانی مشقت کر کے اپنے لیے ایک وقت کی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے پاس پیٹ بھر کر کھانے کے لیے مناسب غذا کا فقدان ہے۔ ملاوٹ زدہ آدھ کلو دودھ میں ڈھیر پانی ڈال کر پتلی پتنگ اور کالی بھجنگ چائے کے سات کپ بنتے ہیں جو خاندان کے سب چھوٹے بڑے، خشک روٹیوں کے ساتھ پیتے ہیں۔ یہ ناشتہ کر کے وہ دن بھر کی مشقت کرنے گھر سے نکلتے ہیں۔ ان غریبوں کے چہروں پر غربت و عسرت کی ساری کہانی لکھی ہوئی ہے مگر کون ہے اس شہر میں ایسا اہل اختیار جو ان کہانیوں کو پڑھے؟
مہنگائی اس قدر ہے کہ ستر سالہ تاریخ میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ کر غریب شہر کی زندگیوں کا مذاق اڑاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب باقاعدہ بھوک سہنے اور بھوکے رہنے کے عادی ہو رہے ہیں۔ میں نے غربت کی ایسی کہانیاں پہلے کسی سے نہیں سنی ہیں۔
وہ غریب عورت مجھے اپنی بیٹی کی کہانی سنا رہی تھی کہ داماد موٹر سائیکل کسی سے مانگ کر لے گیا بدقسمتی سے حادثہ ہو گیا، پرانی موٹر سائیکل کو بھی نقصان پہنچا اور غریب گٹے گوڈے بھی تڑوا بیٹھا، مناسب علاج تو کیا کرواتے ابتدائی طبی امداد کے لیے بھی مناسب پیسے نہیں تھے۔ محنت مزدوری کرنے والا گھر بیٹھ گیا تو سچ مچ کے فاقے ہونے لگے۔ میں یہ سن کر کانپ گئی۔ اللہ کی توفیق سے کچھ مالی امداد کی کہ جائو گھر کا راشن پانی پورا کر کے دے آئو۔
اس نے کہا کہ محنت مزدوری کرنے والا داماد ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتا۔ اب تغاری اٹھانے کا کام نہیں کر سکتا۔ میرے ذہن میں رسول اللہ ﷺ کی روشن حیات کا وہ واقعہ آیا۔ جس میں میرے رسول پاکؐ غریب شخص کو خود کما کر کھانے کی نصیحت اس طرح کرتے ہیں جو سامان گھر میں ہے، وہ بیچ کر کلہاڑا اور رسی خریدو اور جائو جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹو، بیچو اور اپنا رزق کمائو۔ بس اسی روشنی کا سرا تھام کر اسے کچھ رقم دی کہ اگر وہ سبزی کا ٹھیلہ لگا لے، تو بیٹھ کر اپنا رزق کما سکتا ہے۔
کالم میں اپنے قصے سنانے سے گریز کرتی ہوں مگر آج اسے لکھ دیا ہے کہ اس لیے کہ بتانا چاہتی ہوں خستہ حال گھروں میں خوفناک بھوک اتری ہے۔ مائیں بچوں کو بھوکا سلانے لگی ہیں۔ خدا کے لیے اپنے آس پاس، غریب رشتہ داروں، گھر میں کام کرنے والے ملازمین، کا دھیان رکھیں۔ اگر آپ کے گھر، شہر کے خاک بسر کوڑا اٹھانے کے لیے آتے ہیں تو انہیں خاص طور پر مہینے بھر کا کچھ راشن خرید دیں۔ یقین کریں وہ بھی انسان ہیں۔ روٹی کھانے والے، کوڑا نہیں کھاتے۔
ان بے حس حکمرانوں سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں جو مسلسل جھوٹ بول کر، کھوکھلے دعوے کر کے عوام کا پیٹ صرف تقریروں سے بھرنا چاہتے ہیں۔ آئے دن ایک شہ دماغ غربت اور مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو ایک انوکھا مشورہ دیتا ہے مگر اب تو حد ہی ہو گئی جب ایک ایم پی اے نے کہا کہ مہنگائی خدا کی طرف سے ہوئی ہے اور ایک فرشتہ اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرتا ہے۔ پہلے لگا موصوف نے شاید مذاق میں یہ بات کہی۔ اگرچہ ایسے حالات میں یہ مذاق بھی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، مگر ان انصافیوں سے ایسی بد ذوقی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پھر سنا کر سوشل میڈیا پر خوب درگت بننے کے بعد موصوف اپنے اس تاریخی بیان پر اور پکے ہو چکے ہیں۔ اس بستی میں جہاں غریب اور سفید پوش زندگی ایک سزا کی طرح گزار رہے ہوں۔ گھر میں بھوک پڑی ہو۔ بچوں نے پھلوں اور گوشت کا ذائقہ مہینوں سے نہ چکھا ہو، وہاں بزدار حکومت جو عملاً وزیر اعظم کی ہدایت نامے کے مطابق چلتی ہے، نے درجنوں لگژری گاڑیاں اور وزیر اعلیٰ کے لیے بلٹ پروف گاڑی لینے کی منظوری دے دی ہے۔
بھوکے ننگے، خستہ حال عوام پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر یہ ظلما ور مطلق نا انصافی کس حساب میں؟ آپ تو دو نہیں ایک پاکستان بنانے آئے تھے۔ اوپر سے ریاستِ مدینہ کی بنا نے کی رٹ ہر شخص نے اپنی تقریر میں لگا رکھی ہے۔ یہ لوگ کس مریخ کی مخلوق ہیں، بے حسی کے کون سے گلیشیئر ان کے دلوں پر جم چکے ہیں جو پگھلتے کا نام نہیں لیتے۔ خدایا یہ کون سا عذاب ہے جو بستیوں پر بے حس حکمرانوں کی صورت نازل ہوا۔؟
ارے کوئی ہے اس خرابے میں جو یہ آواز سنے کہ کہ خدا کی قسم غریب فاقوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کوئی ہے اس خرابے میں جو مہنگائی سے سہمے ہوئے سفید پوش پاکستانیوں کی اذیت کو محسوس کرے!