ارشاد نامہ:کامیابی کی حیرت انگیز داستان
میرے والد صاحب ہم بہن بھائیوں کو زمانہ طالب علمی سے امید اور عزم سے بھری ہوئی کہانیاں اور واقعات تسلسل سے سنایا کرتے تھے۔ سکول و کالج کے زمانے میں میرٹ سے ذرا آگے پیچھے ہو کر ڈی میرٹ ہونے والے مشکل مرحلے میں ان کے دیے ہوئے حوصلے ہی وہ چراغ تھے جو اس دور کی مضحکہ خیز قسم کی جذباتی مایوسی میں ہمیں پھر سے یقین اور امید کی طرف لے آئے۔ کہ زندگی میں کامیابی مسلسل جدوجہد اور عزم و ہمت سے عبارت ہے۔ والد صاحب کی گفتگو ایک اعلیٰ قسم کی موٹیویشنل تقریر سے کم نہ ہوتی۔ بلا شبہ زندگی کے سفر میں دم توڑتی ہوئی کوششوں میں کسی کا حرف امید، اندھیروں میں چراغ جلا دیتا ہے۔ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں موٹیویشنل تحریروں اور تقریروں کا باقاعدہ ایک فیشن چلا ہے۔ ہمارے لکھاری یا مقرر زیادہ تر مغرب سے برآمد شدہ موٹیویشنل واقعات لوگوں کو سناتے ہیں۔ ہم نے بہت کم اپنے مقامی کامیاب لوگوں کی زندگیوں پر اس زاویے سے نگاہ ڈالی۔ ہمارے ہاں بھی ہر فیلڈ کے کامیاب و کامران افراد کی ایک کہکشاں موجود ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خود نوشت لکھنے کا رواج کم رہا ہے۔ یوں مختلف کامیاب لوگوں کی زندگی کی کہانیاں اپنی تمام تر اونچ نیچ کے ساتھ ہمارے سامنے کم ہی آتی رہی ہیں۔ پورا سچ تو کوئی بھی بیان نہیں کر سکتا مگر ہم ادھورا سچ بھی بیان کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے اپنی زندگی کی کہانی لکھ کر اردو ادب کی خودنوشت کی صنف میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ محترم جج صاحبان نے اپنی خود نوشت تحریر کیں، مثلاً سابق چیف جسٹس پاکستان اجمل میاں نے اپنی سوانح عمری بزبان فرنگ لکھی۔ نام ہے A judge speaks out۔ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ سابق چیف جسٹس پاکستان نے اپنی خود نوشت، Memories and refelectionsکے نام سے تحریر کی۔ جسٹس محمد منیر نے مختصر سوانح Highways and byways of lifeکے نام سے تحریر کی۔ ان تمام میں دو باتیں مشترک ہیں کہ اظہار کا ذریعہ انگریزی زبان ہے، دوسرا ان تمام سوانح عمریوں میں فاضل جج صاحبان نے اپنے دور میں کئے گئے کچھ اہم فیصلوں کا دفاع کیا۔
اس کے برعکس ارشاد نامہ کا کمال یہ ہے کہ یہ عوامی زبان میں لکھی گئی ہے، اظہار بیان نہایت دلنشین سادہ اور سلیس ہے کہ سکول کا ایک طالب علم بھی اسے پڑھتے ہوئے دلچسپی محسوس کرے۔ صد شکر کہ انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی کو محض عدالتی فیصلوں کے دفاع تک ہی محدود نہیں رکھا۔ ایک عام قاری کی اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی، ہاں قانون اور سیاست کے طالب علموں کے لئے یقینا یہ بیش قیمت ہوتی۔ اگرچہ خود جسٹس ارشاد لکھتے ہیں کہ خود نوشت لکھنے کا مقصد ظفر علی شاہ کیس کے تاریخ ساز فیصلے کے تمام پہلوئوں کو واضح کرنا تھا، جسے بقول ان کے چند مفاد پرستوں نے متنازعہ بنا دیا۔ بہرحال یہ اس خود نوشت کا محض ایک حصہ ہے۔ پوری کتاب کو اسی تناظر میں دیکھنا اس شاندار خودنوشت کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
کہانی کے آغاز میں ہم بٹالہ کے کم سن ارشاد حسن سے ملتے ہیں، جو نو دس برس کی عمر میں پہلے اپنی پیاری ماں اور پھر مختصر سے وقفے کے بعد اپنے والد کے سائے سے محروم ہو جاتا ہے۔ 1946ء کا زمانہ ہے پاکستان کی جدوجہد عروج پر ہے۔ یہ یتیم بچہ نوزائیدہ مملکت پاکستان میں آ کر مہاجرت کی بے سروسامانی کے عالم میں زندگی گزارنے کا جتن کرتا ہے۔ قدم قدم پر معاشی مشکلات ہیں۔ والدین کے سائے سے محرومی جذباتی خلا پیدا کرتی ہے کسمپرسی کا دور ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہ کمسن بچہ اللہ قادر مطلق پر غیر متزلزل یقین کی طاقت سے بھرا ہوا ہے۔ قلفی کھانے کا جی مچلتاہے، جیب خالی ہے، اس کے باوجود کمسن ارشاد حسن قلفی والے کی طرف اس یقین سے چلنا شروع کر دیتا ہے کہ میرا اللہ مجھے قلفی کھلائے گا۔ یقین کی طاقت کہ راستے میں گرے ہوئے پیسے نظر آتے ہیں، جھٹ سے وہ اٹھا کر قلفی خریدلیتا ہے۔ جذبہ دل کی صداقت اللہ پر غیر متزلزل یقین اور حیرت انگیز خود اعتمادی وہ سہارے ہیں جن سے زندگی کے مختلف مرحلوں میں مشکلات اور مصائب سے نکلے۔ بالآخر ایک بے وسیلہ یتیم بچہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عظیم الشان عہدے تک پہنچتا ہے، بے سروسامانی کے عالم میں وکالت کا آغاز کیا، پھر ہائی کورٹ کے جج بنے۔ وفاقی سیکرٹری قانون سپریم کورٹ کے جج اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان جیسے کلیدی عہدے پر پہنچے۔ کتاب کے پہلے کچھ ابواب تو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کتاب سے کچھ مختصر اقتباسات کالم میں شامل کرتی ہوں۔ آسانی نہیں بلکہ کوشش، سہولت نہیں بلکہ صعوبت سے انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ زندگی میں جب بھی محرومی کا احساس ہوا، آمنہ کے لال ﷺ کی سیرت کھول لی۔ کامیابی کا راز قناعت اور شکر گزاری ہے۔ میں ہمیشہ قناعت اور شکر گزاری کے ساتھ رہا۔ میں اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر خلوص دل سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ جب بھی میں نے صبر سے کام لیا کامیاب ہوا۔ جب بے صبری کی ناکام ہوا۔
زندگی میں کامیابی کیلئے بنیادی چیز علم ہے۔ اپنی زندگی میں جدوجہد کرتے ہوئے افراد کیلئے اس کتاب میں سیکھنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثلاً جسٹس صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے زمانہ طالب علمی میں ہمیشہ فرسٹ کلاس لوگوں کی طرح سوچا۔ میں نے دیکھا کہ کامیاب لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ خود اعتمادی ایسی چیز ہے، جو سیکھی جا سکتی ہے۔ آپ جتنے خود اعتماد ہیں، اتنے ہی کامیاب ہیں، آپ جو خود کو مانیں گے وہی دوسرے آپ کو مانیں گے۔ اردو ادب کی سوانح عمریوں میں ارشاد نامہ ایک شاندار اضافہ ہے ہر نوجوان ہر طالب علم کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں کو میرا مشورہ تو یہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کے ساتھ جسٹس صاحب کی گفتگو کی نشست کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جہاں وہ یقین، امید اور خود اعتمادی پر اپنے زندگی کے تجربات شئیر کر سکیں۔ کم از کم کوئی یہ تو اعتراض نہیں کرے گا کہ یہ موٹی ویشنل خود تو کچھ کرتے نہیں دوسروں کو سمجھانے آ جاتے ہیں۔ کیونکہ جسٹس صاحب کے پاس سنانے کے لئے کسی اور کی نہیں اپنی کامیاب زندگی کی کہانی ہے۔ جس پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے:
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لئے دو گام چلوں اور منزل سامنے آ جائے