دوسروں کی پرائیویسی کا احترام ہم پر واجب ہے
ہر ہاتھ میں سمارٹ فون موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اب ہر شخص، اپنے ہاتھ میں ایک عدد کیمرہ اٹھائے پھرتا ہے جس کی چاہے تصویر بنائے، جس منظر کی چاہے ویڈیو بنائے۔ بنا بتائے، بغیر اجازت۔ چاہے تو دور سے زوم کرے اور منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرے۔ کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے انسانوں سے ان کی ذاتی زندگیوں کا سکھ چھین لیا ہے۔ ہماری ذاتی زندگیاں کن کن آئینوں کے روبرو رکھی ہوئی ہیں، ہمیں اس کی خبر نہیں۔ آپ دو دفعہ کسی خاص موضوع پر ویڈیوز دیکھتے ہیں یا گوگل پر مواد ریسرچ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسی موضوع سے متعلقہ خبریں، مواد ویڈیو آپ کے سوشل میڈیا اکائونٹ میں پاپ آپ(POP-up) ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کی پسند ناپسند کا کہیں ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ اس سے متعلقہ، اشتہارات اور خریداری کے آپشن آپ کی فیس بک نیوز فیڈ پر بھی آپ کو دکھائی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا ہماری ذاتی زندگیوں میں مداخلت کا یہ وہ زاویہ ہے جس پر ہمارا کنٹرول نہیں۔ کچھ مداخلتیں ایسی ہیں جو ہماری اپنی اختیار کردہ ہیں۔ بغیر اجازت لوگوں کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا ان میں سے ایک ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ٹیلی ویژن کے ایک سینئر اداکار انور اقبال کا احتجاج اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے۔ سینئر اداکار بیمار ہیں اور علاج کی غرض سے کراچی کے ایک مشہور ہسپتال میں داخل ہیں کہ کسی شوقین مزاج نے چپکے سے تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر خبر کی صورت چلا دی۔ وہ خبر آپ سب کی نظر سے گزری ہو گی جس میں انور اقبال کی پرانی اور حالیہ تصویر ساتھ ساتھ لگا کر سنسی خیز پیڈ لائن لگائی ہوئی ہے، جیسا کہ آج کل سوشل میڈیا میں فیشن ہے کہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، ایسے الفاظ کا چنائو کرتے ہیں جس سے ایک سنسنی پیدا ہو اور صارف فوراً کلک کر کے خبر کی طرف متوجہ ہو۔ اگلے روز انور اقبال نے اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ میری بیماری کے دوران بلا اجازت تصویر بنا کر میری پرائیویسی کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس پر احتجاج کرنا یقینا اس شخص کا حق ہے جس کی اجازت کے بغیر کوئی اس حلیے میں اس کی تصویر بنا کر چوک میں لٹکا دے جس حلیے میں وہ گھر سے باہر آنا پسند نہیں کرتا۔
گلوکارہ کومل رضوی نے بستر مرگ پر پڑے ایدھی صاحب کے ساتھ مسکراتی ہوئی سیلفی سوشل میڈیا پر شیئر کی تو لوگوں نے اسے شہرت کی اس اندھی خواہش اور دل کی بے حسی پر آڑے ہاتھوں لیا۔ زندگی کے آخری دنوں میں منو بھائی طویل بیماری کاٹ رہے تھے۔ بہت کمزور ہو چکے تھے۔ اکثر ہسپتال میں رہ کر آتے۔ لکیروں والا سوتی پاجامہ اور ویسی ہی سادہ سوتی شرٹ پہنی ہوتی۔ سر کے بال اور داڑھی بڑھی ہوتی۔ کمزوری سے ان کی شکل بھی پہچان میں نہ آتی۔ ان کی عیادت کے لئے جانے والے جب ان کے ساتھ سیلفیاں لے کر سوشل میڈیا پر لگاتے تو بہت برا لگتا۔ انہی دنوں عیادت کے لئے میں بھی ایک دو بار ان کے گھر گئی مگر میں نے اس طرح کی تصویر بنانے کی جرأت نہیں کی۔ ایک بار میں ان کی عیادت کے لئے گئی تو تمام گھر والے ان کی چارپائی کے گرد جمع تھے۔ منو بھائی کی اہلیہ ایک طرف اشکبار آنکھوں سے یٰسین سورۃ پڑھ رہی تھیں۔ کلمہ طیبہ کا ورد ہو رہا تھا۔ منو بھائی خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ آج تک یہ منظر میرے دل میں نقش ہے۔ صحافتی اصطلاح میں "ایکسکلیسو سٹوری" تھی ویڈیو اور تصویر بن جاتی تو آن کی آن میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی۔ الحمد للہ ایک سنگل تصویر بھی نہیں بنائی۔ مجھے اخلاقی قدروں کا احساس تھا اور دوسروں کی شخصی اور ذاتی زندگی کا مکمل احترام ملحوظ خاطر تھا۔ ہاں اس پر اگلے روز کالم ضرور لکھا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دوست کے ہمراہ اجمل نیازی صاحب کی عیادت کے لئے سروسز ہسپتال گئے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر بیمار اجمل نیازی صاحب کے ساتھ تصاویر کا سلسلہ خوب مقبول تھا۔ میری دوست بھی چاہتی تھیں کہ ان کے ساتھ تصویر بنائی جائے۔ میں نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے۔ مگر میں ہسپتال میں علاج کروانے مریض کی پرائیویسی کو کیسے سوشل میڈیا کے تھڑے پر تصویر کی صورت لٹکا دوں۔ میں تصویر نہیں بنائوں گی۔ دوست صاحبہ بھی یہ نقطہ سمجھ گئیں اور پھر تصویر بنوانے سے احتراز کیا۔
مجھے تو اس پر بھی سخت اعتراض ہے کہ سماجی و ادبی تقریبات میں کوئی سمارٹ فون کا کیمرہ آن کئے لوگوں کی تصویریں بغیر اجازت بناتا چلا جائے اور پھر انہیں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرے۔ اس کے لئے کچھ ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی ایک قدرے فربہ لڑکی کسی شاپنگ مال میں الیکٹرک سیڑھیوں پر چڑھنے کی پہلی کوشش میں بار بار گرتی ہے۔ کسی مجرمانہ ذہنیت کے شخص نے اپنے موبائل فون کے کیمرے سے دور سے زوم کر کے اس شریف خاتون کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ اب لوگ اسے دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں اور اس شریف خاتون کے ٹھٹھے اڑا کر اپنی گھٹیا ذہنیت آشکار کر رہے ہیں۔ ذاتی زندگی میں اس طرح کی مداخلت سائبر کرائم کے زمرے میں آنی چاہیے۔ 2018ء میں IVLPکورس کے تحت امریکہ کی مختلف ریاستوں کا دورہ کیا تو نئی سٹیٹ میں پہنچنے سے پہلے مجھے آج بھی وہ ہدایات یاد آتی ہیں جو آئی وی ایل پی کے تحت امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران ہر نئی ریاست میں پہنچنے پر ہمیں پمفلٹ اور فائل کی صورت میں دی جاتیں۔
ہمارے دین میں دوسروں کی زندگیوں کے بارے تجسس کرنے اور ٹوہ لگانے سے منع کیا گیا ہے۔ دوسروں کی پرائیویسی کا اس قدر احترام ہے کہ حکم ہوا دروازے پر تین بار دستک دو۔ جواب نہ آئے تو واپس لوٹ آئو۔ سکول اور کالج میں ان تمام اخلاقی قدروں کا سکھانا نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ صرف بچوں کو ہی نہیں ہمارے "بڑوں " کو بھی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ اس کی ترویج اور تشہیرالیکٹرانک میڈیا سے بھی ہونی چاہیے۔ دوسروں کی پرائیویسی کا احترام ہم سب پر واجب ہے۔