عارف نظامی :تہذیب ،توازن، شائستگی اور پروفیشنل ازم
جیسے خاندان کا کوئی بڑا چلا جائے تو لواحقین اس کی رخصتی پر اداس ہوتے ہیں اسی طرح عارف نظامی کے چلے جانے سے صحافت کا خاندان اداس ہے۔ خاندان میں بڑے بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی آپ مجھے خاندان کے چھوٹوں میں شمار کرلیں جسے انہیں قریب سے جاننے کا کوئی دعویٰ نہیں لیکن وہ میرے صحافت کے خاندان کے بڑوں میں سے تھے اور چھوٹے ہمیشہ اپنے بڑوں سے سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے وجود کی برکت سے ایک اطمینان کشید کرتے ہیں۔
عارف نظامی سے کچھ خاص ملاقاتیں نہیں تھیں بس یوں ہی کسی تقریب میں ایک دو سرسری سی ملاقاتیں۔ آخری بار میں نے انہیں نائنٹی ٹو اخبار کی راہداری میں دیکھا تھا سلام دعا ہوئی وہ اپنے پروگرام کے لئے سٹوڈیو میں جا رہے تھے۔ دیکھنے میں کچھ کمزور لگے جیسے چلتے ہوئے بہت احتیاط سے چل رہے ہیں تاہم سکرین پر ان کی صحت بہتر دکھائی دیتی۔ ان کی کالم کے ذریعے ان سے ہفتے میں دو تین ملاقاتیں تو ہو جاتی تھیں ان کو گنتی میں شمار کریں بے شمار ملاقاتیں بنتی ہیں۔ حرف و لفظ کی بیٹھک میں ہونے والی ان ملاقاتوں سے بہتر کون سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ ان کے کالم سیاسی حالات پر اپنے متوازن تجزیوں کی بدولت میرے پسندیدہ تھے۔ عارف نظامی اپنے سماجی اثر ورسوخ کی وجہ سے ملک کے کے بااثر سیاسی حلقوں تک رسائی رکھتے تھے، دوسرے الفاظ میں وہ اندر کی خبر تک رسائی رکھتے تھے۔ محترم ارشاد عارف صاحب نے اپنے کالم میں بڑی تفصیل لکھا کہ کتنی اہم خبروں کو عارف نظامی صاحب نے بریک کیا۔ اور حالات کے دباؤ کے باوجود اور وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔
ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام سینئر صحافی جب انہیں یاد کرتے ہیں تو بطور ایڈیٹر ان کے پروفیشنل ازم کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ دی نیشن کو ایک قابل قدر اخبار بنایا۔ بلاشبہ وہ ایک ایسے پروفیشنل ایڈیٹر تھے جو میدان صحافت میں عملی طور پر بھی سرگرم رہتے تھے۔ خبر پر کسی قسم کا سمجھوتا اخبار کے قاری کے علاوہ ساتھ خود اپنے پروفیشن کے ساتھ بھی بددیانتی خیال کرتے۔ اپنے تمام تر سماجی تعلقات کے باوجود اور وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اہم ترین خبروں کو چھاپنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ عارف نظامی صحافت سے وابستہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ایک بڑے میڈیا گروپ کے مالکان میں سے تھے جس کے بانی ان کے والد حمید نظامی تھے۔ عارف نظامی اس اندرونی شکست و ریخت سے بھی بڑے پروقار انداز میں گزرے۔ اسی رکھ رکھاؤ کے ساتھ جس کا ذکر نجیب احمد نے کیا کہ
بے سروسامان ہم بھی ہیں مگر دکھتے نہیں
اس کے بعد انہوں نے اپنے بل بوتے پر انگریزی کا اخبار پاکستان ٹوڈے نکالا اگرچہ انہیں بڑی بڑی کاروباری شخصیات نے سرمایہ فراہم کرنے کی پیشکش کی کہ آپ اخبار نکالیں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن عارف نظامی نے ان تمام پرکشش آفرز کو قبول نہیں کیا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں نائنٹی ٹو۔ میڈیا گروپ سے وابستہ تھے۔ ہو کیا رہا ہے کے نام سے ٹاک شو بھی کرتے اور اخبار میں کالم بھی لکھتے تھے۔ ان کا کالم میں باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھی۔ اگرچہ ٹاک شوز بہت کم دیکھتی ہوں لیکن عارف نظامی کا تجزیاتی پروگرام نظر سے گزرتا تو ضرور دیکھتی۔ ان کابات کرنے کا انداز پروقار اور ٹھہراؤ سے لبریز تھا جسے سن کر سماعتوں میں ہیجان برپا نہیں ہوتا تھا۔ بڑی سے بڑی سنسنی خیز خبر بریک کرتے وقت ان کا لہجہ توازن اور تہذیب سے آراستہ رہتا۔
عین عید کے روز عارف نظامی کی اچانک وفات کی خبر نے دل کو بوجھل کردیا۔ مجھ سمیت بہت سوں کے لئے ان کے وفات کی اچانک خر صدماتی تھی کیونکہ اس سے پہلے ان کی علالت کی کوئی خبر نہیں آئی تھی، آخر وقت تک عارف نظامی کے کالم اخبار میں آتے رہے۔ شاید اس لیے بھی کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ وہ شدید بیمار ہیں۔ ممتاز دانشور اور صحافی آئی اے رحمان بھی آخری سانس تک کام کرتے رہے۔ ان کی وفات سے چند روز پہلے بھی ان کا کالم معاصر انگریزی اخبار میں شائع ہوا۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے وفات پانے والے ایک اور ممتاز صحافی محمد طفیل جو پا طفیل کے نام سے مشہور تھے وہ بھی اپنا آخری کالم اپنی بیماری سے چند روز پہلے اخبار میں دینے کے لئے خود اخبار کے دفتر تشریف لائے۔ آہ کیسے بڑے لوگ تھے، جیون کے راستے پر اپنے کام میں پورے دل اور روح کے ساتھ منہمک رہے اور جب موت نے دستک دی تو پھر اسی وقار کے ساتھ موت کا ہاتھ تھام کر زندگی کے سٹیج سے اتر گئے۔ عارف نظامی جیسا وضعدار توازن اور تہذیب سے آراستہ صحافی صحافت کے شعبے کی پہچان بھی تھا اور پروفیشنل ادارتی صحافت کا قابل قدر حوالہ بھی۔
وہ اپنے کالموں میں جذباتیت سے ماورا ہو کر حقائق پر مبنی سیاسی اور سماجی حالات کا تجزیہ کرنے والے اور اپنے ٹاک شو میں ٹھہرے ہوئے لہجے میں گفتگو کر کے بھی ٹی وی چینل کو کامیاب پروگرام دینے والے آج کل کی ہنگامہ آمیز اور سنسنی خیز میڈیائی صحافت میں نوواردان صحافت کیلیے سیکھنے کا سامان بہم کرتے۔ وہ صحافت کے داستانوی کردار نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے بیٹے تھے، یوں ان کا تعلق ان زمانوں سے جڑتا تھا جب صحافت اہل علم و ادب اور اہل دانش کا میدان تھی۔ دشت صحافت میں عمر گزارنے والے ممتاز صحافی عارف نظامی تہذیب، توازن، شائستگی، وقار اور سوچ بچار کا مرقع تھے۔ ان کے جانے سے صحافت کا منظر نامہ ویران ہے۔ دعا ہے کہ وہ اپنے ابدی مکان میں اللہ کی رحمتوں میں آسودہ رہیں۔ آمین