اطمینان قلب کی سائنس (3)
اورفی زمانہ انسان کاالمیہ یہی ہے کہ اس سے خود اپنی پہچان کھوچکی ہے ورنہ باہر دوردرازکائنات کی وسعتوں میں سرگرداں پھرنے کے بجائے اپنے اندر جھانک لیتاتوخود کو پاچکاہوتاپہچان چکا ہوں اوراسے معلوم ہوچکاہوتاکہ "اطمینان قلب یا نفس مطمئنہ کیاہے اوراسے کیسے حاصل کیاجاسکتا۔
جہاں تک"باہر"ڈھونڈنے کاتعلق ہے تو وہ تو ناممکن تھا ناممکن ہے اورناممکن رہے گا۔ اطمینان قلب، حقیقی خوشی اور سکون کاسرچشمہ نفس کے اندرہی ہے اور اندر اترنے کے لیے کہیں آنے جانے یاذرایع مواصلات کی ضرورت نہیں ہوتی اس سلسلے میں مولانا ئے روم کاایک بے بہاشعرہے۔
عقل گوئدکہ شش جہات است وبیرون راہ نسیت
عشق گوئدکہ راہ است ومن رفتہ ام بارہا
ترجمہ۔ عقل کہتی ہے کہ دنیامیں صرف اطراف ہیں اوراس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لیکن عشق کہتاہے کہ راستہ ہے اورمیں اس پر کئی بار آتاجاتارہاہو۔
اورہمیں یہی ساتواں راستہ ڈھونڈناہے جو ان چھ اطراف کے علاوہ ہے اور اسے ڈھونڈنا کے لیے کچھ زیادہ محنت کی بھی ضرورت نہیں نہ کہیں آنے جانے کی کیوں کہ وہ راستہ خودانسان ہے۔ اس ساتویں راستے یاسمت کے لیے ہمیں پہلے ان چھ اطراف کو سمجھناہوگا جوقطعی معروضی ہیں کیوں کہ کائنات میں طرف یاجہت کاکوئی وجود ہے کہ سب کچھ گول ہے مثلاً اسلام آباد۔
اب اوپر اورنیچے کودیکھتے ہیں، میں جہاں کھڑا ہوں، وہاں میرے سر کی طرف کواوپرکہاجاتا ہے اورپیر نیچے کی طرف ہیں لیکن زمین کی دوسری طرف آسٹریلیا وغیرہ ہیں جو آدمی کھڑا ہے اس کے پیر میرے سر یا اوپرکی طرف ہیں اورسر میرے پیروں کی سیدھ میں ہے۔
اس کے سر پر بھی "اوپر" آسمان ہے اورمیرے سرکی طرف بھی اوپر آسمان ہیں۔ اس طرح کرہ ارض میں جہاں کہیں بھی کوئی کھڑاہے، وہ اوپر اورنیچے کاتعین اپنے سر اورپیروں سے کرے گا، جب کہ سب کے سب ایک دوسرے سے متضاد اطراف میں "سر" اورپیر کیے ہوئے ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ اس کائنات میں کہیں بھی کوئی ایسی جگہ موجود نہیں ہے جسے مرکزمان کر اطراف کاتعین کیاجاسکے اورجن اطراف کا ہم نے تعین کررکھا ہے، یہ خود اپنے آپ سے کیا ہے، انسان جہاں کھڑا ہے وہیں سے اطراف شروع ہوتے ہیں اورختم بھی ہوتے ہیں۔
گویا خود انسان کی ذات ہی تمام جہات اوراطراف کا مرکزہے، یہی مولانا روم یا عشق کا ساتواں راستہ ہے، اسی لیے دوبارہ یاد دلاؤں گا کہ جس نے خود کو پہچانا یا "پایا" اس نے رب کو پایا، اورجس نے "رب"کو پایا اس نے سب کو پایا، نفس کو بھی، قلب کوبھی اوراطمینان کو بھی اوروہ "نفس مطمئنہ"ہوگیا۔
اس سلسلے کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے میں بیج اورنباتات کی مثال دیناچاہتاہوں۔ نباتات کی پیدائش "بیج"سے ہوتی ہے لیکن "بیج" کاجو دانہ ہم دیکھتے ہیں، وہ بھی سارے کا سارا"بیج" نہیں ہوتا بلکہ اس دانے میں بھی ایک اورباریک سا بیج ہوتا ہے جیسے ہم گندم، مکئی یاکسی بھی بیج کے سرے پر دیکھتے ہیں۔ انڈا بھی ایک بیج ہے اورانڈا بھی سارے کا سارا بیج نہیں ہوتا بلکہ سفیدی میں ایک چھوٹا ساسخت دانہ اورہوتاہے وہی اصل بنیاد ہے۔
نموپانے پر جب اس "بیج" کے اندر سوئی ہوئی زندگی جاگتی ہے تو وہ متحرک ہوجاتی ہے، پہلے اس سے جڑ نکلتی ہے، اس کے بعد بیج کاباقی حصہ اس کا جسم بن جاتاہے۔ انڈے کی سفیدی سے چوزے کا جسم تشکیل پاتاہے اور"بیج" کاباقی حصہ "پتے" بن جاتے ہیں، یہیں سے پھر سلسلہ آگے بڑھتاہے، دو پتوں سے چار چار سے آٹھ نکلتے ہیں، پھر تنا اورشاخیں، لیکن بڑھنے کے باوجود یہ نمو اس جڑ سے ملتی ہے جب تک وہ جڑ زمین میں پیوست رہ کرخوراک حاصل کرتی ہے، پیڑ پھیلتا اورنشوونماپاتاہے، وہ جڑ اگر کٹ جائے یااسے خوراک نہ ملے تو پیڑ باہرکی کسی بھی چیز سے نمو نہیں پاتا۔ اگر جڑ کو پانی نہیں ملتا تو تنا، ٹہنیاں اورپتے مرجھانے، سوکھنے اور مرنے لگتے ہیں۔
آپ اس پیڑکوپانی میں نہلادیں یا ڈبو دیں جب تک جڑ کوپانی نہیں ملے گا، وہ نشوونماپانا تو کیا زندہ بھی رہ نہیں پائے گا۔ یہی حال انسان کا بھی ہے اور اس کی جڑیں اس کے اندر ہوتی ہیں۔ پھر عرض کردوں گا کہ اگر جڑ"تشنہ" ہوتو پیڑکبھی سیراب نہیں ہوپائے گا اوراس پوری کائنات اور سارے سلسلہ تخلیق کو اگر ہم دیکھیں تو ہرہرمقام پر یہی"بیج" کاسلسلہ ہے۔ بگ بینگ کا ذرہ بھی ایک بیج ہی تھا جوپھوٹا تو اس پوری کائنات کی شکل میں پھیل گیا اورپھیل رہاہے اوران سب کی ابتدا وہی جڑ یا بیج ہے بلکہ بیج کے اندر کی وہ توانائی ہے جو اسے زندہ اورمتحرک کیے رکھتی ہے۔
دکھاؤں گا تماشا، دی اگر فرصت زمانے نے
مراہرداغ دل اک غم ہے سروچراغاں کا
آپ اگر نباتات کامشاہدہ کریں تو ان کی نشوونما اندر سے ہوتی ہے، اندر سے پہلے انتہائی چھوٹے چھوٹے پتے نکلتے ہیں، اندرہی سے بڑھتے ہیں اوراس کے نتیجے میں وہ چیزپھیلتی ہے۔ آپ اس کا مشاہدہ بند گوبھی یاکسی بھی بند شگوفے یاکلی میں کرسکتے ہیں۔ سب کی نشوونما اندر سے ہوتی ہے، باہرسے نہیں، ایک چھوٹے سے شگوفے یاکلی کے اندرسے بڑھوتری ہوتی ہے جس کاتعلق جڑ سے ہوتاہے، جڑمادے سے توانائی حاصل کرتی ہے اورآگے پھر اندر ہی اندر چل کر پھر مادے میں تبدیل ہوکر نشوونما کاباعث بنتی ہے۔ زندہ مخلوق یاانسان بھی اندر ہی سے بڑھتاہے۔