گدلا پانی۔ اندھی مچھلیاں
معلوم نہیں ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ اور کس لیے کیا؟ لیکن ہمیں ایسا لگتا ہے، یاد رہے کہ ہمیں "لگتا"ہے، ایسا ضروری نہیں کہ ایسا ہو بھی۔ لیکن ہمیں لگتاہے کہ ہم گدلے پانی میں ہوں اور "اندھا مچھلہ" ہو گئے ہوں۔
"اندھا مچھلہ" ہونے پر شاید کوئی اہل زبان و بیان برا مان جائے۔ لیکن ہم بھی کیا کریں خود "مونث بنانا" ہمیں بالکل بھی اچھا نہیں لگتا جیسے اکثر لوگ اپنے آپ کو انگلی کے بجائے "انگلہ" کہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ اہل تذکیر و تانیث بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔
یہ پینے والے بڑے ہی عجیب ہوتے ہیں
جہاں سے دور خود اپنے قریب ہوتے ہیں
دراصل یہ ایک پشتو محاورہ ہے۔ اندھی مچھلیاں۔ گدلا پانی یا گدلا پانی۔ اندھی مچھلیاں۔ بلکہ "مچھلے" اور یہی بات ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آخر کیوں ہمیں ایسا لگتاہے۔ کیا واقعی پانی گدلا ہے اور مچھلے اندھے ہیں اور اگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟ آخر یہ پانی گدلا کس نے کیا؟ اردو میں تو کہا گیا ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے یا گدلا سمجھ لیجیے۔ ادھر پڑوس والے کچھ اور راگ الاپتے ہیں۔
مچھلی جل کی رانی ہے، جیون اس کا پانی ہے
جل میں رہے تو زندہ رہے
جل سے نکالو مر جائے گی
یہ تو عام سی بات ہے۔ مچھلی پانی کے بغیر مر جاتی ہے لیکن انسان کوئی معمولی شے تو نہیں، اس نے ایسا انتظام بھی کیا ہوا ہے کہ مچھلی پانی میں رہ کر بھی اندھی کر دیتا ہے اور پانی گدلا کر دیتاہے اور مچھلیاں ایک دوسرے کو ٹکر مار مار کر مر جاتی ہیں۔ مچھلیوں کے بارے میں انسان ہمیشہ بہت ہوشیار رہا ہے۔ یہودیوں کو سبت (ہفتے) کے دن مچھلیاں پکڑنے کی ممعانت کر دی گئی تو انھوں نے چالاکی کر کے ایسے تالاب بنائے، جس میں ہفتے کے دن مچھلیاں جمع ہو جاتی تھیں اور دوسرے دن آرام سے پکڑ لیتے تھے۔
اس چالاکی کے جرم میں خدا نے ان کو بندر بنا دیا۔ بات تو ہم اندھی مچھلیوں بلکہ اندھے مچھلوں کی کر رہے تھے جو آج کل گدلے پانی میں ایک دوسرے کو ٹکریں مار رہے ہیں۔ ویسے اگر ہم یہ سراغ لگانا چاہیں کہ پانی کو کس نے گدلا کر دیا ہے تو سیدھی سی بات ہے یا تو مچھلیوں نے کیا ہے، جن کے "آنسو" مشہور ہیں۔ آنسوؤں کو ایک طرح "بیانات" بھی کہہ سکتے ہیں اور پانی کو گدلا کرنے کی تدبیر بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ "آنسو" بے آواز اور آنکھوں کے بیانات ہوتے ہیں اور بیانات مگرمچھ کے آنسو ہوتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے یا واقعی پانی گدلا ہے اور مچھلے اندھے ہو گئے۔ یا یہ صرف ہمارا "وہم" ہے، گمان ہے ع:
مٹ گیا ذوق یقیں نقش گماں سا رہ گیا
رک گئیں آہیں مگر دل میں دھواں سا رہ گیا
لیکن یہ بھی تو ہمارے یہاں پشتو بولنے والے بزرگوں نے کہا ہے کہ خٹک کا گمان یقین سے کم نہیں ہوتا۔ ایک بہت پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارے ساتھ تیسری جماعت میں ایک لڑکے سے استاد نے پوچھا، "چھپکلی" کس کو کہتے ہیں۔ لڑکے نے جواب دیا، مچھلی کو۔ استاد نے اسے ڈانٹا تو بولا، استاد جی! مچھلی ہی تو چھپکلی ہوتی ہے جو پانی سے نکل کر چھپکلی بن جاتی ہے۔
اس کے بعد اس لڑکے کانام ہی مچھلی پڑ گیا لیکن اب ہم سوچ رہے ہیں کہ وہ لڑکا اتنا زیادہ غلط بھی نہ تھا، فرق صرف یہ ہے کہ مچھلی تیرتی ہے اور چھپکلی چپک جاتی ہے اور جب کسی مکان کی دیواروں سے چپک جاتی ہے تو پھر کبھی نہیں اترتی ہے، انڈے بچے دیتی رہتی ہے اور دیواروں سے اپنے پورے خاندان کو چپکا دیتی ہے۔
یہاں پر ایک شبے کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ یہاں ہمارا مطلب "مکان " ہے، ملک سے نہیں کہ ملک کی دیواروں سے صرف چھپکلیاں ہی چپکی ہوئی نہیں ہیں بلکہ سانپ بچھو اور چوہے بھی لگے ہوئے ہیں جن میں وہ چوہے بھی ہیں جن کے بلوں کا دہانہ یہاں اور "ٹیل" کہیں اور ہے۔ وہ انتخابات بھی لڑتے ہیں اور بل کھود کر یہاں وہاں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر نکلے ادھر ڈوبے یا ع:
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
"دار" کا مطلب "گھر" بھی تو ہوتا ہے، اسی کی نسبت سے "ثواب دارین" بھی کماتے ہیں۔ اب اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ کیا واقعی یہ ہمارا وہم ہے یا درحقیقت ہم "گدلے" پانی کے "مچھلے" ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی بزرگوں سے سنا ہے کہ جب کچھ نکمے ماہی گیر جو خود سمندر میں مچھلیاں نہیں پکڑ سکتے ہیں یا زیادہ پکڑنا چاہتے ہیں یا دوسرے ماہی گیروں سے مقابلہ نہیں کر پاتے تو وہ پانی کو گدلا کر دیتے ہیں اور اپنے علاقے یا شکار گاہیں بانٹ لیتے ہیں۔"اللہ اعلم" کہ ہم تو اندھے مچھلے ہیں۔ کیا جانیں کہ پانی گدلا ہے یا شفاف یا شکاری کون ہے۔
مشرق بعید میں کچھ تفریح گاہیں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں ریستوران والوں نے زندہ مچھلی تلنے کا بندوبست کیا ہوتا ہے۔ خریدار کو بٹھا کر زندہ مچھلیوں کو دمُ کی طرف سے کڑاہی میں ڈبو کر تل لیتے ہیں اور گاہک کو اس حالت میں پیش کر دیتے ہیں کہ مچھلی ادھر منہ کھول کر مر رہی ہے اور وہ لوگ اس تلا ہوا حصہ کھاتے رہتے ہیں۔