دوفضول کتابیں
اچھی اچھی کتابوں پرتوہم تبصرہ کرتے رہتے ہیں، کیوں کہ اچھی کتابوں میں ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ہی خود کو پڑھواتے ہیں، اپنے اوپرتبصرہ بھی کرواتے ہیں اورخود ہی خودکوخریدواتے بھی ہیں، لیکن آج ہم دوایسی فضول کتابوں پرتبصرہ کرناچاہتے ہیں جو اتنی فضول ہیں کہ اگر خودکوخود بھی پڑھ لیں توسوائے فضول فضول کے زبان سے اورکچھ بھی نہ نکلیں، اس پر ہمیں ایک پرانا واقعہ بھی یادآرہاہے۔
ہم بس میں بیٹھے تو میرے ہمراہی کو ایک ادھیڑعمرشناسا ملا، دونوں میں بات چل پڑی، میرے دوست نے اس ادھیڑ عمرشخص سے پوچھا"کیوں بھئی، وہ جوتمہاری بیٹی تھی جس کے رشتے کے لیے تم پریشان تھے اس کارشتہ کہیں لگاکہ نہیں " اس پر وہ شخص ایک دم سنجیدہ اور رنجیدہ ہوکربولا، "کہاں بھائی۔ کل بھی کچھ لوگ آئے تھے لیکن انکار کرکے چلے گئے" پھرتھوڑا پازدے کربولا"لوگوں کابھی کچھ زیادہ قصورنہیں وہ کم بخت اتنی بدصورت ہے کہ اگرکوئی میرے لیے مانگتا تومیں بھی انکارکردیتا۔"
اس دوفضول کتابوں کے بارے میں بھی ہمیں یقین ہے کہ اگر ٹائٹل اورنام وغیرہ ہٹاکر خود ان کے لکھنے والوں سے بھی پڑھواتے تومنہ سے "فضول " کے سوا اورکچھ نہ نکلے۔
ان دونوں میں جودوسری کتاب ہے، وہ ذراکم فضول ہے کیوں کہ دوسری کاجواب ہے اورفضول سوال کاجواب عموماً فضول ہی ہوگا اورہوناچاہیے، اس پربھی ہمیں ایک حقیقہ یادآرہاہے۔ بنوں میں پشتو کے ایک اچھے شاعرتھے، اس اچھے شاعر کامجموعہ کلام چھپاتو اس کے ایک مخالف نے اس پر ایک مخالفانہ کتابچہ لکھ مارا، جس کے فضول ہونے کااندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے والی کتاب پرحمزہ شنواری نے مقدمہ لکھا تھاچنانچہ اس فضول کتاب میں اس نے جہاں جہاں بھی حمزہ صاحب کانام آیاتھاوہاں نام کے بجائے ہمزہ لکھا تھا، ہمزہ نے لکھاہے، ہمزہ نے کہا ہے، ہمزہ نے یہ اوروہ۔ ایک تقریب میں دونوں اکٹھے تھے، ایک شخص نے اچھی کتاب والے سے پوچھا، یہ فلاں وہی ہے ناجس نے آپ کی کتاب پر"تنقید" کی ہے؟ اچھی کتاب والے نے کہا وہ تنقید تونہیں "تنقیص "ہے، یہ بات دوسرے نے بھی سنی پلٹ کر بولا۔ ناقص چیزوں پر "تنقیص" ہی کی جاتی ہے تنقیدنہیں۔
مطلب یہ کہ ہم اس دوسری فضول کتاب کومعاف کیے دیتے ہیں کہ فضول چیزوں پر فضول ہی لکھاجاسکتاہے۔ آج ہمیں حقیقے ہی حقیقے یادآرہے ہیں۔ اسکول میں ہمارے پرائمری کے استاد نے ایک دن ہم سے پوچھا، اگرتم راستے پرجارہے ہو اورکوئی کتاتم پربھونکنے لگے توتم کیاکروگے۔ ایک لڑکے نے کہا میں اسے پتھرماروں گا، دوسرے نے کہا میں گھر جاکربندوق لاؤں گااورکتے کوگولی ماردوں گا، یہ دوسرالڑکاہم تھے۔ آخر میں استاد نے ہمارے جوابوں کوایک ایک کرکے غلط ٹھہرایااورکہا۔ کہ اچھی بات یہ ہے کہ تم اس کابھونکناان سنی کردواورخاموشی سے چلے جاؤ، وہ تھوڑی دیربھونکے گاپھر اپنے بھونکنے کاردعمل نہ پاکرخاموش ہوکرپلٹ جائے گا کہ ایسے فضول کام کا فائدہ کیاجس کاکوئی اثرہی نہ ہو۔
مطلب کہ ساری بات اس پہلی فضول کتاب کی ہے لیکن اس پہلی فضول کتاب کالکھنے والابھی اتنا فضول نہیں ہے بلکہ"بے چارہ" ہے قسمت کاماراہے کھسیانی "بلی" جیسابے سہاراہے۔ ایسا اگرنہ کرتاتو پھرکیاکرتا؟ وہ کسی شخص نے دوسرے سے کہا۔ کیاکروں میں نے اس گاؤں میں اتناکچھ کیاہے لیکن پھربھی میرانام نہیں۔ میں نے"پل"بھی بنائے "چاہ" بھی بنائے، تالاب یعنی فیض کے کئی اسباب بنائے لیکن لوگوں کو میرانام منظورنہیں، ایساکروں کہ گاؤں میں ہرایک کی زبان پر میرانام ہو۔ اس دانا شخص نے مشورہ دیاکہ جاکرمسجدمیں "وہ "کروجو مسجدمیں کوئی نہیں کرتا، پھردیکھنا کہ تیرے چرچے ہرزبان پرہوں گے، اس نے جاکر مسجد میں "وہ" کردیاجوکوئی نہیں کرتااورپھر اس کانام بچے بچے کی زبان پر جاری ہوگیا۔
آج کل ترے مرے چرچے ہرزبان پر
سب کومعلوم ہے اور سب کو خبرہوگئی
چنانچہ اس بے چارے درد کے مارے نے بھی جاکر مسجد میں وہ کرتے ہوئے کتاب لکھ ماری۔ دراصل ہوایوں تھاکہ نوجوانی کے زمانے میں وہ ایک "اونٹ کایہ ہونٹ"کے نیچے بیٹھ کر انتظارکرنے لگا کہ اونٹ کایہ ہونٹ اب گراتب گرااورمیں اسے ہڑپ کرلوں گا۔
ہم نے خود اسے دیکھا تھا ہم جب ایک مرتبہ کابل گئے تھے، اجمل خٹک سے بھی ملنے گئے وہاں ہم نے ایک نوخط نوخیز نوجوان کودیکھاتھا لیکن تعارف نہیں ہواتھا اور اب کتاب لکھنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ نوخیزنوجوان یہی تھا، بیچ بہت لمبا عرصہ گزرگیاہے، بے چارے اونٹ کے ہونٹ کے انتظار میں اپنے نوخیزبال سفید کرلیے اس کے بعد میں آنے والے اعظم ہوتی، اسفندیارخٹک اوربہت سارے "مراد" کوپہنچ گئے لیکن یہ بے چارہ۔
دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے میراخرمن برباد آیا
تو اورکیاکرتا، سیدھی سی بات ہے کہ اونٹ کوپتھرمارتاہے اوروہ اس نے اس کتاب کی شکل میں ماردیے۔
ہم نے جب اس فضول کتاب کے بارے میں سنا تو بہت سے لوگوں نے پڑھنے کاکہا، لیکن ہم نے کہا جب ہمیں پہلے ہی معلوم ہے کہ اس کتاب میں کیاہے توپڑھنے سے فائدہ کیا۔ لیکن اب اس دوسری فضول کتاب کے پڑھنے والے اسے ضرورپڑھیں گے۔