اک سیانی بات
"ڈر" کے فیوض وبرکات، خوبیوں اور صفات اور پھل فروٹ وثمرات کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ "ڈر"چیز ہی ایسی ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، قصیدے پڑھے جائیں اور مدح سرائیاں کی جائیں کم ہوں گی۔
دامان نگہ تنگ وگل حسن تو بسیار وبے شمار
گبر سنگھ تو بے وقوف تھا، احمق تھا، ووٹر تھا، عوام تھا، ساتھ ہی کالانعام وبے لگام بھی تھا۔ اگر "ڈر"کا طرف دار ہوتا تو آج بھی جیوت ہوتا اور یوں جوتے کھاکھا کر نہ مرتا۔ ان پڑھ تھا ورنہ خود اس کے نام میں بھی ڈر یعنی گبر جو بغیر آنکھوں کے "گھبر"ہی تھا لیکن وہ گھبراتا نہیں تھا۔
اس لیے گبر ہوا، پھر خبر ہوا اور پھر قبر ہوا۔ ہم تو اتنے ڈرشناس ہیں کہ مرشد کو دل وجگر رونے پیٹنے کے لیے ایک مددگار درکار تھا اور اگر ہماری اسطاعت ہوئی تو ہم"نوحہ گر" کے بجائے بہت سارے "ڈرگر"رکھ لیتے جو گلی گلی دن رات یہی صدا دیتے کہ ڈرتے رہو، اے غفلت کے مارو ڈرتے رہو، انسانوں سے اور حیوانوں سے، بعد میں ڈرتے رہو، دوستوں سے پہلے اور دشمنوں سے بعد میں، ڈرتے رہو پاکستانی روپے اور عوامیہ کی ستائی اور ارزانی سے پہلے اور مہنگائی وگرانی سے بعد میں۔ ڈرتے رہو خدمت گاروں سے پہلے اور ڈاکا ماروں سے بعد میں۔ ڈرتے رہو معاونوں اور مشیروں سے پہلے اور وزیروں سے بعد میں۔ ڈرتے رہو پولیس والوں سے پہلے اور چوروں سے بعدمیں۔ ارادہ ہے کہ اگر کبھی ڈرنے سے فرصت ملی تو ایک زبردست قسم کا ماسٹرپیس قصیدہ ڈرئیہ، ڈرپوکیہ وگھبرائیہ لکھیں جس میں اہم ثابت کردیں گے کہ دنیا میں "ڈر"سے بڑی دولت اور کوئی نہیں۔ ڈر ڈر ہے بڑی چیز جہاں تگ ودو میں۔ اگر آج ہم اپنا "ڈرگزشت"یا ڈربینی لکھیں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ اگر ڈر ہمارے پاس نہ ہوتا ہے تو ہم کب کے مرچکے ہوتے لیکن جوڈر گیا وہ بھر گیا اور پھر آرام سے بھر کر گھر گیا اور گھر کو بھی سب کچھ سے بھر گیا۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
اے بہادری، شجاعت اور دلیری کے امراض میں مبتلا لوگو۔ اگر ان جان لیوا امراض سے نجات پانا چاہتے ہو جو انسانوں کو مارے بغیر نہیں چھوڑتی تو حکیم الحکما، طبیب الاطبا، حاذق الخذقا جناب"ڈر"سے رجوع کرو، اس کا تیر بہدف، رام بان اور بے خطا نسخہ "ڈر" استعمال کرو۔ ڈر کو پالو پوسو اور جان بناؤ۔ سارے خطرے، سارے امراض اور سارے درد دور ہوجائیں گے۔ "ڈر"کے سلسلے میں ایک اور بات بڑے کام کی یہ ہے کہ کچھ بڑبولے غلط سمت جارہے ہیں۔
اصلی ڈرنے والی چیزوں سے نہیں ڈرتے اوران چیزوں سے ڈرتے ہیں جو ڈرنے کی نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ڈراتے رہتے ہیں۔ اکثر لوگ دوسرے کو کہتے ہیں، اﷲ سے ڈرو، یا پھر یہ سنا ہوگا کہ میں بس اﷲ سے ڈرتا ہوں ورنہ۔۔ اگر غور کیا جائے تو اﷲ ظالم سے ناراض ہوتا ہے، ایسا ظالم جو اﷲ کی مخلوق پر عرصہ حیات تنگ کرتا، کسی کا حق مارتا یاکسی کا ناحق قتل کرتا ہے، ورنہ تو اﷲ سراسر پیار ہی پیار ہے۔
محبت ہی محبت ہے، جمال ہی جمال ہے۔ جس نے بغیر مانگے اتنا کچھ دے رکھا ہے، یہ خوبصورت جسم، اس میں خوبصورت دماغ، آنکھیں، ناک کان، ہاتھ، پیر کہ ایک ایک کا مول کروڑوں میں بھی کم ہے۔ اس کی طرف تو لپکو، دوڑو اور قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرو۔ ایک نادان بچہ بھی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اسے کچھ دیتے ہیں، کھلاتے ہیں، پلاتے ہیں اور پیار کرتے ہیں، کیا بچہ ان سے ڈرتا ہے؟ کیا بچہ ماں سے ڈرتا ہے، کیا کسی بچے کو ماں کے دودھ سے ڈرنا چاہیے یا وہ ڈرتا ہے، کیا وہ میٹھی چیزوں سے ڈرتا ہے، خوبصورت کھلونے دینے والوں سے ڈرتا ہے؟ وہ تو ہمیں پیار کرتا ہے۔
چیزیں دیتا ہے، کھلاتا پلاتا ہے اور ہم اس سے ڈریں اور جن چیزوں سے ڈرنا چاہیے، ان سے بالکل بھی نہیں ڈرتے، انھیں چاہتے ہیں، گلے لگاتے ہیں اور قربت اختیار کرتے ہیں۔ اکثر تو اپنی اس خطا کو زبان سے بھی دوہراتے رہتے ہیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انتہائی قابل نفرت، سراسر برائی اور خطرناک چیزوں سے تو ہم دن رات محبت کیے جارہے ہیں، ان کے پیچھے دوڑتے ہیں، انھیں حاصل کرنے کے لیے جان بھی داؤ پر لگاتے ہیں۔ اور ان سب سے بے نیاز کرنے والے سے ڈرتے رہیں۔ ہمیں تو دوڑ کر اس کے پاس جانا چاہیے، اس لپٹنا چاہیے اور محبوب تر بنانا چاہیے۔
اب ہم نہیں جانتے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔ گہری دانائی کی باتوں سے ناآشنا ہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ڈرنا کس سے چاہیے اور کس سے نہیں۔
دل ول، پیار ویار میں کیا جانوں رے
جانوں تو جانوں بس اتناکہ تجھے اپنا جانوں رے