ایک بالٹی والا وزیراعظم
نوے برس کے ضعیف آدمی کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا۔ بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔
سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی، ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن۔ پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھا ر پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہواکہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزر رہا تھا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔ تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔ اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ ایڈیٹر نے بزرگ شخص کی تصاویر دیکھیں تو چونک اٹھا۔
رپورٹر سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو جانتے ہو۔ رپورٹر ہنسنے لگا کہ ایڈیٹر صاحب۔ اس بابے میں کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی بھی اس پر توجہ دے۔ اسے تو محلہ والے بھی نہیں جانتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے۔ برتن بھی خود دھوتا ہے۔ معمولی سے گھر میں جھاڑ پوچا بھی خود لگاتا ہے۔ اس کو کس نے جاننا ہے۔
ایڈیٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے رپورٹر کو کہا کہ یہ ہندوستان کا دومرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہے اور اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے۔ رپورٹر کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اور اس بدحالی میں۔ خیر اگلے دن اخبار چھپا تو قیامت آ گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ عاجز سا بوڑھا ہندوستان کا دوبار وزیراعظم رہ چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی معلوم ہو گیا کہ گلزاری لال کس مہیب مفلسی میں سانس لے رہا ہے۔ خبر چھپنے کے چند گھنٹوں بعد، ریاست کا وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری اور کئی وزیر اس محلے میں پہنچ گئے۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ کو سرکاری گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور سرکار ماہانہ وظیفہ بھی لگا دیتی ہے۔
خدارا اس معمولی سے مکان کو چھوڑیے۔ مگر گلزاری لال نے سختی سے انکار کر دیا کہ کسی بھی طرح کی سرکاری سہولت پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ یہیں، اسی کوارٹر میں رہے گا۔ گلزاری لال کے چند رشتہ داروں نے منت سماجت کر کے بہر حال اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہر ماہ، پانچ سو روپے وظیفہ قبول کر لے۔ سابقہ وزیراعظم نے حد درجہ مشکل کے بعد یہ پیسے وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اب اس قلیل سی رقم میں کرایہ، کھانا پینا شروع ہو گیا۔
مالک مکان کو جب علم ہوا کہ اس کا کرایہ دار پورے ملک کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ تو گلزاری لال کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیے کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کا کرایہ دار اس اعلیٰ ترین منصب پر فائر رہ چکا ہے۔ بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہے اور بس۔ جب تک گلزاری لال زندہ رہا، اسی مکان میں رہا اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میں گزارا کرتا رہا۔
گلزاری لال نندہ حیرت انگیز کردار کا انسان تھا۔ سیالکوٹ میں 1898 میں پیدا ہوا۔ اور 1998 میں احمد آباد میں فوت ہو گیا۔ جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد 1964 میں وزیراعظم رہا۔ اور 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد بھی اس بلند پایہ منصب پر فائز رہا۔ بنیادی طور پر ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ دراصل وہ اقتصادیات کا استاد تھا۔
ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتا رہا۔ سیاست میں آیا تو یونین منسٹر، وزیر خارجہ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن بھی رہا۔ متعدد بار لوک سبھا کا ممبر بھی منتخب ہوا۔ گلزاری لال کافلسفہ تھا کہ زندگی کو بہت سادہ گزارنا چاہیے۔ کسی شان و شوکت کے بغیر انتہائی قلیل رقم میں خوش رہنا ہی اصل امتحان ہے۔ ویسے گلزاری لال سادگی بلکہ عسرت میں رہنے کی جو مثال قائم کر گیا اس کے لیے حد درجہ مضبوط کردار کی ضرورت ہے۔
نناوے سال کی عمر میں فوت ہوتے وقت، اس کے پاس کسی قسم کی جائیداد، کوئی بینک بیلنس اور کوئی ذاتی گھر تک نہیں تھا۔ بس ایک عزت و احترام کا وہ خزانہ تھا جو امیر سے امیر لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں سیاست میں حد درجہ کرپشن ہے مگر اس کے باوجود ہمیں بارہا گلزاری لال جیسے کردار مل ہی جاتے ہیں ۔ انڈیا میں کئی ایسے بلند سطح کے سیاست دان موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ بھی نہیں ہیں۔
گلزاری لال کے حالات زندگی جاننے کے بعد عجیب سا غم ہوا۔ ہمارے سیاست دان دولت کمانے کو اپنا اصل مذہب جانتے ہیں۔ مقصد حیات صرف یہ ہے کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا وزیر بنو اور اس کے بعد کشتوں کے پشتے لگا دو۔ بلکہ ہمارے چند جید سیاست دانوں نے تو پیسہ کمانے اور اسے غیر ممالک میں منتقل کرنے سے عالمی بدنامی کمائی ہے۔
ان کی کرپشن پر کتابیں چھپی ہیں۔ مگر انھیں کسی قسم کا پچھتاوا نہیں ہوتا۔ ناجائز دولت کمانے میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے عملی کردار میں کوئی فرق نہیں ۔ اکثریت کا ناجائز دولت کمانے کا وطیرہ بالکل ایک جیسا ہے۔ مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے جب یہ اکابرین، غریبوں کے معاملات کو بہتر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ خان صا حب اپنے آپ کو انقلابی کہتے تھے۔ ان کا بنی گالہ والا گھر سینتیس ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہ کسی لحاظ سے بھی کوئی معمولی گھر نہیں ہے۔ خان صاحب کی پارٹی کا نعرہ ہی تبدیلی اور سادگی کا تھا۔
سینتیس ایکڑ کے گھر میں رہنے سے بہر حال سادگی کا رویہ قطعاً ظاہر نہیں ہوتا۔ اس بات پر بحث نہیں کر رہا کہ یہ محل انھوں نے جائز ذرایع سے بنایا ہے یا اس کے برعکس کوئی اور معاملہ ہے۔ بہر حال انقلاب اور تبدیلی، عیش و عشرت میں رہنے سے آنی حد درجہ ناممکن ہے۔ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کسی امیر سیاست دان نے انقلابی فلسفہ پر عملی کام کیا ہو۔ بالکل یہی حال آل شریف کا ہے۔ رائیونڈ کی جائیداد سترہ سو ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہ اٹلی میں ویٹیکن سٹی سے پندرہ گنا بڑی ہے۔
ویٹیکن سٹی میں دنیا کا اہم ترین مذہبی رہنما پوپ رہتا ہے۔ یعنی پوپ جس کا اثر پوری دنیا کے ہر کونے میں موجود ہے۔ اس کی سرکاری ریاست جاتی عمرہ سے حد درجہ چھوٹی ہے۔ جس رقبہ پر رہائش گاہیں ہیں اس کا رقبہ تین سو بارہ ایکڑ ہے۔ بہر حال اتنی پر تعیش رہائش گاہ میں رہنے کے بعد، غریبوں کی حالت بہتر کرنے کا نعرہ کچھ متضاد سا معلوم ہوتا ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے قائد کا مرکزی گھر بھی ایکڑوں میں ہے۔ بلکہ تحقیقات کے مطابق، سابقہ صدر نے اپنے پرانے گھر کے اردگرد، متعدد گھر انتہائی کم قیمت پر خرید لیے ہیں۔
ان کی بدولت اب یہ گھر بھی ایک وسیع محل ہے جو کراچی کے سب سے مہنگے علاقے کلفٹن میں موجود ہے۔ لاہور کا بلاول ہاؤس پچیس ایکڑ میں ہے۔ یہ گھر بم پروف ہے۔ اس میں ہیلی پیڈ اور چھوٹا سا رن وے بھی موجود ہے۔ اس میں دس ہزار لوگوں کے جلسے اور میٹنگ کے لیے وسیع جگہ موجود ہے۔ اب اس جماعت کے رہنماؤں کا دعویٰ بھی غریب کی غربت کو ختم کرنا ہے۔ مگر یہ بھی ان کے رہن سہن سے میل نہیں کھاتا۔
کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ میں تو سیاسی اکابرین کے غیظ و غضب کا بار ہا نشانہ بن چکا ہوں۔ مگر میرا ایک سوال ہے۔ میری دانست میں یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ شاہانہ ترین طریقے سے محلوں میں رہنے والے ہمارے سیاسی اکابرین کیا واقعی غریب عوام کی بہتری اور ترقی کے متعلق درست دعوے کرتے ہیں ۔ غیر جانبدار تجزیہ کے مطابق ان میں سے کوئی بھی عوام کی حالت بدلنے کے متعلق بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔ بس کھوکھلے اور بے جان نعرے ہیں۔ جن سے یہ لوگ عام آدمی کو کافی حد تک بے وقوف بنانے میں کامیاب ہیں۔
ہاں، ایک مذہبی جماعت یعنی جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس کا امیر حد درجہ سادگی سے زندگی گزارتا ہے۔ منصورہ میں امیر کی رہائش گاہ بالکل عام سی ہے۔ صرف چند کمروں پر محیط۔ عرض کرونگا کہ مجھے ہندوستان کے سابقہ وزیراعظم گلزاری لال نندہ کی سطح کا پاکستان کا صرف ایک مرکزی سیاسی رہنما دکھا دیجیے۔ تو میری بھی خاصی اصلاح ہو جائے گی۔
مگر اس سطح کی سادگی کی عملی مثال ہمارے ہاں ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہمارے پاس تو پانچ سو روپے ماہانہ کرایہ کا چھوٹا سامکان اور ایک بالٹی والا کوئی بھی سیاسی رہنما نہیں ہے۔ ان عملی تضادات کے بعد ملک نے کیا خاک ترقی کرنی ہے؟